- فتوی نمبر: 30-279
- تاریخ: 13 اگست 2023
- عنوانات: مالی معاملات > منتقل شدہ فی مالی معاملات
استفتاء
ہماری آن لائن ویب سائٹ ہے جس پر لڑکیوں کی میک اپ اور ہیلتھ کیئر پروڈکٹس کی ہم تشہیر کرتے ہیں ،سوال یہ ہے کہ پراڈکٹس کی تصاویر میں تقریبا لڑکیوں کی شکلیں بنی ہوتی ہیں جو پہلے سے کمپنیز شائع کرتی ہیں توکیا ایسی تصویروں کو ویب سائٹ پر لگانا اور سوشل میڈیا پر ان کی ایڈورٹائزمنٹ(مشہوری) کرنا درست ہے؟
وضاحت مطلوب ہے:1-پروڈکٹس کی تصاویر ویب سائٹ پر لگانے میں آپ کو کیا کرنا پڑتا ہےیعنی تصویر سازی کا عمل کرنا پڑتا ہے یا نہیں ؟2-اور تصاویر کی کیا نوعیت(برہنہ یا نیم برہنہ) ہوتی ہے؟3-کیا آپ تصاویر کی دوسری سائیڈ (جس پر تصویر نہ ہو) وہ سوشل میڈیا پر لگا سکتے ہیں یا اسی طرح لگانا ضروری ہوتا ہے؟4- آپ مارکیٹنگ بھی کرتے ہیں یا صرف سوشل میڈیا پرایڈورٹائزمنٹ کرتے ہیں؟
جواب وضاحت:1- ہمیں کمپنی کی طرف سے پروڈکٹس اور تصاویر کی پوسٹ وغیرہ مکمل تیار شدہ ملتی ہیں تصویر سازی کا عمل نہیں کرنا پڑتا،2-تصاویر میں زیادہ تر صرف چہرہ نمایاں ہوتا ہے،3-ہمیں وہ تصاویر تیار شدہ ملتی ہیں ہم ان میں تبدیلی نہیں کر سکتے،4-ہم نے صرف ان پروڈکٹس کی ایڈورٹائزمنٹ (مشہوری)کرنی ہوتی ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں جن اشتہارات میں عورت کے چہرے کی تصویر ہو یا چہرے کی نہ ہو باقی جسم کی ہو لیکن شہوت انگیز ہو ایسے اشتہارات کو ویب سائٹ یا سوشل میڈیا پر لگانا جائز نہیں کیونکہ عمومی طور پر اس طرح کے معاملات میں جو طریقہ رائج ہے وہ یہ ہے کہ اشتہار لگانے والا اپنے پاس موجود اشتہار کی کاپی ہی آگے لگاتا ہے یعنی وہ تصویر اس کے پاس باقی بھی رہتی ہے اور اسی جیسی آگے بھی لگ جاتی ہے ، اور چونکہ تصویر کی کاپی کرنا بھی تصویر بنانے کے حکم میں ہے اور جاندار کی تصویر بنانا جائز نہیں لہٰذا تشہیر کی مذکورہ صورت جائز نہیں۔ نیز مذکورہ اشتہارات عورتوں کی برہنہ یا نیم برہنہ دیکھنے کا ذریعہ بنیں گے اور چونکہ ایسی تصاویر دیکھنا بھی گناہ ہے اور گناہ کا ذریعہ بننا بھی گناہ ہے اس لحاظ سے بھی تشہیر کی مذکورہ صورت جائز نہیں۔
نوٹ :کسی پروڈکٹ کی تشہیر میں جاندار کی تصویر بذات خود کسی نہ کسی درجہ میں مقصود ہوتی ہےبالکل ضمنی نہیں ہوتی اس لیے اس کو تبعا بھی جائز نہیں کہا جاسکتا ۔
تفسير ابن كثير (2/ 13) میں ہے:
وقوله: {وتعاونوا على البر والتقوى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان} يأمر تعالى عباده المؤمنين بالمعاونة على فعل الخيرات، وهو البر، وترك المنكرات وهو التقوى، وينهاهم عن التناصر على الباطل والتعاون على المآثم والمحارم.
مرقاة المفاتيح (رقم الحدیث:4497)میں ہے:
(وعن عبد الله بن مسعود قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: أشد الناس عذابا عند الله المصورون):قيل:الأولى أن يحمل على التهديد; لأن قوله: عند الله يلوح إلى أنه يستحق أن يكون كذا لكنه محل العفو، وقال النووي: هذا محمول على من صور الأصنام لتعبد فله أشد العذاب لأنه كافر، وقيل: هذا فيمن قصد المضاهاة بخلق الله تعالى، واعتقد ذلك، وهو كافر، وعذابه أشد، وأما من لم يقصدها فهو فاسق لا يكفر كسائر المعاصي، ثم الشجر ونحوه مما لا روح له، فلا تحرم صنعته، ولا التكسب له. هذا مذهب العلماء إلا مجاهدا، فإنه جعل الشجرة المثمرة من المكروه، واحتج بقوله صلى الله عليه وسلم: ( «ومن أظلم ممن ذهب يخلق كخلقي» ) فذكر الذرة وهي ذات روح، وذكر الحنطة والشعير، وهما جمادان، ووعد عليه وعدا شديدا، حيث أخرج الجملة على سبيل استفهام الإنكار، وذكر الظلم على صيغة التفضيل.
قلت: استدلاله ظاهر جلي. قال: واحتج الجمهور لقوله صلى الله عليه وسلم: أحيوا ما خلقتم ". قلت: وله قوله صلى الله عليه وسلم: ليخلقوا حبة ” قال: وبالمضاهاة بخلق الله. قلت: العلة مشتركة. قال: ويؤيده حديث ابن عباس: إن كنت لا بد فاعلا فاصنع الشجر وما لا نص له. قلت: هذا مع كونه مذهب صحابي، إذ يحتمل أن يكون من رأيه يحمل على جواز فعله للضرورة، وعلى ارتكاب كراهة دون كراهة، فإن الضرورات تبيح المحظورات، والله سبحانه وتعالى أعلم بالنيات…. المصور هو الذي يصور أشكال الحيوان فيحكيها بتخطيط لها وتشكيل، فأما الذي ينقش أشكال الشجرة، ويعمل التداوير والخواتيم ونحوها، فإني أرجو أن لا يدخل في هذا الوعيد، وإن كان جملة هذا الباب مكروها وداخلا فيما يلهي ويشغل بما لا يغني، وإنما عطفت العقوبة في الصورة; لأنها تعبد من دون الله.
قلت: ولعل وجه قول الجمهور في التخصيص بذوات الروح أنه لا يجوز أن ينسب خلقها إلى فعل المخلوق، حقيقة ولا مجازا، فخلاف سائر النباتات والجمادات، حيث ربما ينسب فعلها إلى الناس مجازا، ويقال: أنبت فلان هذا الشجر مثلا، وصنع فلان هذه السفينة مثلا، وأما ما عبد من دون الله ولو كان من الجمادات كالشمس والقمر، فينبغي أن يحرم تصويره، والله أعلم
شامی(1/648)میں ہے:
وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصوير الحيوان…. وأما فعل التصوير فهو غير جائز مطلقا لأنه مضاهاة لخلق الله تعالى.
بحر الرائق(2/29)میں ہے:
وفي المغرب الصورة عام في كل ما يصور مشبها بخلق الله تعالى من ذوات الروح وغيرها وقولهم ويكره التصاوير المراد بها التماثيل فالحاصل أن الصورة عام والتماثيل خاص والمراد هنا الخاص فإن غير ذي الروح لا يكره كالشجر
حاشيہ ابن عابدين (6/ 372)ميں ہے:
الثاني: لم أر ما لو نظر إلى الأجنبية من المرآة أو الماء وقد صرحوا في حرمة المصاهرة بأنها لا تثبت برؤية فرج من مرآة أو ماء، لأن المرئي مثاله لا عينه، بخلاف ما لو نظر من زجاج أو ماء هي فيه لأن البصر ينفذ في الزجاج والماء، فيرى ما فيه ومفاد هذا أنه لا يحرم نظر الأجنبية من المرآة أو الماء، إلا أن يفرق بأن حرمة المصاهرة بالنظر ونحوه شدد في شروطها، لأن الأصل فيها الحل، بخلاف النظر لأنه إنما منع منه خشية الفتنة والشهوة، وذلك موجود هنا ورأيت في فتاوى ابن حجر من الشافعية ذكر فيه خلافا بينهم ورجح الحرمة بنحو ما قلناه والله أعلم.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved