- فتوی نمبر: 10-215
- تاریخ: 16 اکتوبر 2017
- عنوانات: مالی معاملات > منتقل شدہ فی مالی معاملات
استفتاء
حضرت! ایک مسئلہ کے متعلق استفسار مقصود ہے رہنمائی فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔
*** اور ***میں ایک معاہدہ زبانی طے ہوتا ہے کہ *** دبئی سے کاسمیٹک کا مال خریدےگا اور *** کو سروس فراہم کرے گا مثلاً دبئی میں ڈیلروں سے اور مختلف کمپنیوں سے ملوائے گا اور یہ کہ جو مال خریدے گا ***اس کے لیے گودام وغیرہ کا انتظام کرے گا، وہاں پر ہر طرح کی خدمت سرانجام دے کر مال کنٹینر میں لوڈ کروا کر پاکستان کے لیے شپمنٹ کروائے گا اور امپورٹ کرنے کے لیے کمپنی کی فراہمی اور پھر پاکستان مال پہنچنے پر اس کا کسٹم کلیئر کروا کر گودام تک مال پہنچا دے گا، جو خرچہ آئے گا وہ سب *** کا ہو گا ***کی صرف سروس ہو گی۔ چنانچہ معاہدے کے مطابق *** اور ***دبئی جاتے ہیں اور *** مختلف جگہوں سے مال خریدتا ہے اور بعض جگہوں پر آڈر بک کروا دیتا ہے اور پیسے دے دیتا ہے، ***کنٹینر کا مال پورا ہونے پر حسب معاہدہ تمام مراحل طے کرتے ہوئے مال *** کو لاہور گودام میں پہنچا دیتا ہے اور سروس چارجز *** اور ***میں پانچ روپے فی پیس جو طے ہوا تھا *** ***کو اسی حساب سے ادائیگی کر دیتا ہے۔
یہاں پر ایک بات اور واضح کرتا چلوں وہ یہ کہ ***اپنے ساتھ اپنے ایک دوست *** (جو کہ دوبئی میں مقیم ہے) کو اپنے ساتھ جوڑتا ہے کہ جو پانچ روپے مجھے *** سے ملیں گے اس میں ڈھائی روپے آپ کے اور ڈھائی روپے میرے ہوں گے، اور دبئی کا کام آپ سنبھالیں گے اور پاکستان کا میں سنبھالوں گا۔ یہ ساری ڈیل *** کے علم میں بھی ہے پھر *** اکیلا دبئی جاتا ہے *** کے پاس ہی ٹھہرتا ہے، کچھ مال کی خریداری یا آرڈر ابھی دیتا ہے اور کچھ مال پچھلے چکر میں سے بھی بقایا تھا، پھر پاکستان آکر مختلف موقعوں پر مختلف پارٹیوں سے مال خریدتا ہے اور *** سے بھی مال خریدتا ہے اور ان کی رقوم *** کو ارسال کرتا ہے جن کا سرسری علم ***کو بھی ہے لیکن تفصیلی علم ***کو نہ ہے کہ کیا خریدا اور کتنی رقوم *** *** کو بھیج رہا ہے۔
خلاصہ یہ کہ *** کی *** کے ذمے کچھ رقم بھی بقایا تھی اور مال بھی بقایا تھا۔
اب ہوتا ہے یہ کہ *** *** کو دوبئی سے دوسرا کنٹینر بھیجتا ہے، *** کی کمپنی کا نام ہے ’’پاک ویز‘‘ اب *** شپنگ کمپنے کے ایجنٹ خالد کو بلاتا ہے اور اسے بتاتا ہے کہ یہ کنٹینر پاکستان بھیجنا ہے ’’پاک ویز‘‘ کے نام پر جو کہ میری کمپنی ہے، خالک بکنگ کروا کر اوریجنل B-L پاک ویز کے نام کی *** کے حوالے کر دیتا ہے، *** وہ B-L اور دیگر ڈاکومنٹس پاکستان ***کے پاس بھجوا دیتا ہے، ***وہ سارے ڈاکومنٹس ایک کلیئرنگ ایجنٹ شاہد کے حوالے کرتا ہے کہ اسے فوراً کلیئر کروا دیں۔ شاہد کلیئرنگ ایجنٹ ***کو بتاتا ہے کہ مال تو ’’پاک ویز‘‘ کے نام پر نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک اور کمپنی ہے ’’الائیڈ‘‘ اس کے نام پر آیا ہے، پہلے مال کو اپنی کمپنی ’’پاک ویز‘‘ کے نام ٹرانسفر کروانا ہوگا (اسے کہتے ہیں امینمنٹ) اور پھر مال کلیئر ہو گا، اس امینمنٹ میں نہ تو دبئی والا ایجنٹ تعاون کرتا ہے بلکہ بہت ہی لیت و لعل اور فرار سے کام لیتا ہے اور نہ ہی پاکستان والا ایجنٹ شاہد اور اس کا معتمد خاص فہد کراچی والا اس معاملے میں جتنی دلچسپی لینی چاہیے تھی اتنی دلچسپی نہیں لیتا، جس کی وجہ سے امینمنٹ میں مہینوں گذر جاتے ہیں۔
یہاں ایک اور وضاحت کرتا چلوں وہ یہ کہ دوبئی والا ایجنٹ خالد اپنے لالچ کی خاطر فراڈ کرتے ہوئے کاغذ تو ’’پاک ویز‘‘ کے بنا کر دے دیتا ہے ہے لیکن کمپیوٹر کے ذریعے چور دروازے سے کنٹینر ’’الائیڈ‘‘ کمپنی کے نام پر بک کرواتا ہے جس کا اقرار فہد کراچی والا بھی کرتا ہے جس کا *** اور ***کو کوئی علم نہیں ہے۔
دوسری وضاحت یہ کردوں کہ پاکستان ایجنٹ شاہد ***کو کہتا ہے کہ آپ دوبئی کنٹینر صرف اسی شخص کے حوالے کریں جس کو فہد کراچی والا کہے گا، اس کا تو میں پوری طرح ضامن اور نفع و نقصان کا گارنٹر ہوں گا اور آپ کسی اور کے حوالے کریں گے تو میری گارنٹی نہیں ہے۔
اب اس ساری تفصیل کو سامنے رکھتے ہوئے چند سوالات کے جواب درکار ہیں۔ ظاہر ہے کہ لیٹ ہونے کی وجہ سے مال پرڈیٹنیشن (کنٹینر کا اضافی کرایہ) اور ڈیمرج (پورٹ کا اضافی کرایہ) کافی مقدار میں پڑ گیا۔ اور کچھ مال کنٹینر میں ضائع ہو گیا اور کچھ مال کی کوالٹی خراب ہو گئی ہے۔
1۔ اب ایک سوال تو ڈیئنیشن اور ڈیمرج کے متعلق ہے کہ وہ کس کے ذمے ہے؟ (الف) آیا امپوٹر *** کے ذمے ہے؟ (ب) یا پاکستانی ایجنٹ شاہد کے ذمے ہے کیونکہ یہ ساری پریشانی غلط بکنگ کی وجہ سے ہوئی جو کہ دوبئی والے ایجنٹ نے فراڈ اور دھوکے سے کی تھی اور وہ آدمی فہد کراچی والے نے دیا تھا، جس کی پوری گارنٹی اور نفع و نقصان کی ذمہ داری شاہد ایجنٹ نے اٹھائی تھی؟
(ت) یا ***اور *** کے ذمے ہے جو کہ سروس پروائڈر تھے جبکہ ان دونوں نے اس میں کسی بھی قسم کوتاہی نہیں کی، جس کا پاکستانی ایجنٹ شاہد اور امپورٹر *** کو بھی اعتراف ہے؟
اور چونکہ *** کے ذمے *** کی کچھ رقم بقایا تھی تو چند دنوں کا ڈینیشن اور ڈیمرج اس کی وجہ سے بھی پڑا کیونکہ *** نقصان ہو جائے کی وجہ سے دیوالیہ ہو گیا تھا اور اس کے پاس رقم نہ تھی اور *** (امپورٹر) یہ کہتا تھا کہ جو رقم میری *** کے ذمے ہے اس میں سے ادائیگی کر کے مال کلیئر کروائیں، تو اس کا انتظام کرتے ہوئے کچھ دن لگے تھے۔
(ث) تو کیا اتنے دنوں کا ڈیئنیشن اور ڈیمرج صرف *** کے ذمے آئے گا یا نہیں؟ اور بقیہ ڈیئنیشن ڈیمرج جو امینمنٹ کراتے ہوئے یعنی پراسس کراتے ہوئے لگا ہے وہ *** (امپورٹر) کے ذمے ہو گا یا ایجنٹ کے ذمے ہو گا، اور کس ایجنٹ پر آئے گا؟
2۔ دوسرا سوال کنٹینر میں موجود مال سے متعلق ہے۔
(الف) اس میں کچھ مال تو وہ ہے جو کنٹینر میں گِر کر ضائع ہو گیا۔ اس کی ذمہ داری کس کے اوپر ہے جبکہ اس میں کس کا بھی عمل دخل نہیں۔
(ب) اور اس میں کچھ مال وہ ہے کہ اس کی کوالٹی خراب ہو گئی ہے۔ اس کا تاوان کس پر ہو گا؟
نوٹ: واضح ہو کہ امپورٹر (***) نے کچھ مال ایکسپائری خریدا تھا اور کچھ مال نیئر ایکسپائر تھا، آیا مال خراب ہونے میں ان کا بھی کچھ عمل دخل ہو گا یا نہیں؟
نیز فارورڈنگ کا اندرون و بیرون ملک اصول ہے کہ حادثاتی طور پر مال ضائع ہو جائے یا خراب ہو جائے تو کمپنی ذمہ دار نہیں ہوتی، اسی وجہ سے بیمہ کرایا جاتا ہے۔ مثلاً ہڑتال کی وجہ سے گاڑی لیٹ ہو گئی یا خراب ہونے کی وجہ سے لیٹ ہو گئی یا کوئی حادثہ پیش آگیا اور مال خراب ہو گیا تو کمپنی ذمہ دار نہیں ہوتی۔ تو ان ساری تفصیلات کو سامنے رکھتے ہوئے جواب عنایت فرمائیں۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
سارا تاوان ***کے ذمہ میں آئے گا۔ پھر ***اپنے تاوان کو اپنے ماتحت کارندوں پر ان کی کوتاہی کے سبب ان پر تقسیم کرسکتا ہے مثلاً خالد نے Pakways کے بجائے Allied سے مال بھجوایا۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved