- فتوی نمبر: 27-260
- تاریخ: 11 ستمبر 2022
- عنوانات: حظر و اباحت > منتقل شدہ فی حظر و اباحت
استفتاء
تعویذ کی شرعی حیثیت
رسول اللہﷺ کے پاس دس لوگوں کا ایک قافلہ آیا۔ آپ نے لوگوں سے بیعت لی اور ایک کو چھوڑ دیا۔ صحابہؓ نے کہا اے اللہ کے رسولﷺ! آپ نے لوگوں سے بیعت لی اور اس شخص کو چھوڑدیا؟ آپﷺ نے فرمایا: اس نے تعویذ لٹکایا ہوا ہے۔ اس نے اپنا ہاتھ ڈال کر اسے توڑ دیا تب آپ ﷺ نے اس سے بیعت لی اور فرمایا جس شخص نے تعویذ لٹکایا اس نے شرک کیا۔ (احادیث الصحۃ: 2961، روایت: عقبۃ بن عامر جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ)
کیا یہ حدیث ٹھیک ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
یہ حدیث مبارکہ ٹھیک ہے اور اس حدیث میں جس تعویذ کی ممانعت آئی ہے اس سے مراد وہ منکا ہے جسے اہل جاہلیت مؤثر بالذات سمجھتے تھے ۔کیونکہ جس حدیث کا ترجمہ آپ نے بھیجا ہے اس کی عربی عبارت یہ ہے:
’’من علق تميمة فقد اشرك‘‘
اور تميمة عربی زبان میں سوراخ دار منکے کو کہتے ہیں چونکہ اہل جاہلیت ایسے منکوں کو مؤثر بالذات سمجھتے تھے اس لیے آپﷺ نے اس سے منع فرمایا باقی وہ تعویذ جن میں کوئی مشرکانہ بات نہ ہو اور نہ ہی ان کو مؤثر بالذات سمجھا جائے تو ان کا استعمال جائز ہے، اگر ہر تعویذ شرک ہوتا توحضرات صحابہ کرامؓ اپنے نابالغ بچوں کے گلوں میں تعویذ نہ ڈالتے، کیونکہ شرکیہ تعویذ نابالغ بچوں کے گلے میں بھی ڈالنا جائز نہیں جبکہ حضرات صحابہ کرامؓ سے اپنے نابالغ بچوں کے گلوں میں تعویذ ڈالنا ثابت ہے۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل احادیث میں ہے۔
سنن الترمذی( رقم الحديث 3528)میں ہے:
عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: ” إذا فزع أحدكم في النوم فليقل: أعوذ بكلمات الله التامات من غضبه وعقابه وشر عباده، ومن همزات الشياطين وأن يحضرون فإنها لن تضره ". فكان عبد الله بن عمرو، يلقنها من بلغ من ولده، ومن لم يبلغ منهم كتبها في صك ثم علقها في عنقه.
ترجمہ: حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی نیند میں ڈر جائے (اور آنکھ کھل جائے) تو یہ (کلمات) کہہ لے ’’أعوذ بكلمات الله التامات من غضبه وعقابه وشر عباده، ومن همزات الشياطين وأن يحضرون‘‘ پھر یہ چیزیں اس کو ہرگز نقصان نہ دیں گی، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ اپنی بالغ(سمجھدار) اولاد کو ان کلمات کی تلقین فرماتے تھے اور جو ابھی بالغ نہ ہوئے ہوں ایک کاغذ میں یہ کلمات لکھ کر (تعویذ بنا کر) ان کے گلے میں ڈال دیتے تھے۔
سنن ابی داؤد(6/40) میں ہے:
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا حماد، عن محمد بن إسحاق، عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يعلمهم من الفزع كلمات: أعوذ بكلمات الله التامة، من غضبه وشر عباده، ومن همزات الشياطين وأن يحضرون وكان عبد الله بن عمرو يعلمهن من عقل من بنيه، ومن لم يعقل كتبه فعلّقه عليه.
ترجمہ: حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ان کو ڈرنے کے وقت ان کلمات کی تعلیم دی تھی ’’أعوذ بكلمات الله التامات من غضبه وعقابه وشر عباده، ومن همزات الشياطين وأن يحضرون‘‘چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمروؓ اپنی سمجھدار اولاد کو ان کلمات کی تلقین فرماتے تھے اور جو ابھی ناسجمھ ہوں ایک کاغذ میں یہ کلمات لکھ کر (تعویذ بنا کر) ان کے گلے میں ڈال دیتے تھے۔
مرقاة المفاتيح شرح مشكوۃالمصابیح (4/ 1716)میں ہے:
(وكان عبد الله بن عمرو) بالواو (يعلمها) أي: الكلمات (من بلغ من ولده) أي: ليتعوذ به (ومن لم يبلغ منهم كتبها في صك) أي: كتاب على ما في النهاية والقاموس، وأغرب ابن حجر لغة وعرفا في تفسير الصك بكتف من عظم (ثم علقها) أي: علق كتابها الذي هي فيه (في عنقه) أي: في رقبة ولده وهذا أصل في تعليق التعويذات التي فيها أسماء الله تعالى
مصنف ابن ابی شیبہ(5/143) میں ہے:
وعن أبي عصمة قال: سألت سعيد بن المسيب عن التعويذ فقال: لا بأس (به) إذا كان في أديم
حضرت ابوعصمہؒ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے (بڑے تابعی حضرت) سعید بن مسیب ؒسے تعویذ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا ’’اگر چمڑے میں ہو تو ا س میں کوئی حرج نہیں‘‘
وفيه أيضا: عن (ثوير) قال: كان مجاهد يكتب (للصبيان) التعويذ فيعلقه عليهم
حضرت ثویرؒ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہدؒ بچوں کے لیے تعویذ لکھ کر ان کے گلے میں لٹکا دیا کرتے تھے۔
وفيه أيضا: وعن جعفر عن أبيه: أنه كان لا يرى بأسًا أن يكتب القرآن في أديم ثم يعلقه
حضرت جعفرؒ سے اپنے والد (امام محمد باقرؒ)کے بارے میں روایت ہے کہ وہ اس بات میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے کہ قرآنی (آیات کو کسی کاغذ پر لکھ کر اس) کو چمڑے میں ڈال کر گلے میں لٹکا دیا جائے۔
وفيه أيضا: حدثنا يحيى بن آدم قال: حدثنا حسن عن ليث عن عطاء قال: لا بأس أن يعلق القرآن
حضرت عطاؒ فرماتے ہیں: قرآن (کی آیات کولکھ کر اس کو) لٹکانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
فتح الباری لابن حجر (باب الرقی بالقرآن والمعوذات، ج:11، ص:352،) میں ہے:
"والتمائم جمع تميمة وهي خرز أو قلادة تعلق في الرأس كانوا في الجاهلية يعتقدون أن ذلك يدفع الآفات …..وإنما كان ذلك من الشرك لأنهم أرادوا دفع المضار وجلب المنافع من عند غير الله، ولا يدخل في ذلك ما كان بأسماء الله وكلامه فقد ثبت في الأحاديث استعمال ذلك”
ترجمہ: تمیمۃ کی جمع تمائم آتی ہے۔ یہ سوراخ دار دانے یا ہار ہوتے تھے جو سر میں باندھے جاتے تھے۔ زمانۂ جاہلیت میں لوگ یہ سمجھتے تھے کہ یہ منکے ان سے آفات وبلیات کو دور کریں گے اور یہ چیز شرک ہے کیونکہ اہل جاہلیت غیر اللہ سے مصیبت دور ہونے اور نفع حاصل ہونے کا اعتقاد رکھتے تھے ۔ باقی وہ(تعویذات) جو اللہ کے نام اور کلام پر مشتمل ہوں ان کا شمار ان(ناجائز منکوں) میں نہ ہوگا کیونکہ احادیث میں ان کا استعمال ثابت ہے۔
مرقاۃ المفاتیح (کتاب الطب والرقی، ج:13، ص:296) میں ہے:
"والمراد من التميمة ما كان من تمائم الجاهلية ورقاها فإن القسم الذي يختص بأسماءالله تعالى وكلماته غير داخل في جملته بل هو مستحب مرجو البركة عرف ذلك من أصل السنة”
ترجمہ: جن تمائم سے منع کیا گیا ہے ان سے مراد وہ ہیں جو جاہلیت میں استعمال ہوتے تھے۔ باقی رہی وہ قسم جو اللہ تعالیٰ کے نام اور کلام پر مشتمل ہو تو وہ ممانعت میں داخل نہیں بلکہ وہ تو مستحب اور برکت کا باعث ہیں۔ احادیث سے یہ بات معلوم ہوئی ہے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved