- فتوی نمبر: 32-10
- تاریخ: 22 مارچ 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > طلاق کا بیان > تحریری طلاق کا بیان > تین طلاقوں کا حکم
استفتاء
طلاق نامہ بحق مسماۃ ******
منکہ مسمی ****** سکنہ ****** شناختی کارڈ نمبر ****** کا ہوں۔من مقر بدرستی ہوش و حواس خمسہ بلا جبر وا کراہ اس طور پر اقراری ہوں اور لکھ دیتا ہوں کہ مقر کی شادی و نکاح ہمراہ مسماۃ ****** سکنہ ****** سے مورخہ 2023-07-10 کو ہوئی ………….. مسماۃ مذکوریہ کے تقاضہ طلاق پر من مقر اپنی منکوحہ مسماۃ ****** کو روبرو گواہان طلاق ، طلاق ، طلاق دے کر اپنی زوجیت سے آزاد کرتا ہے من مقر ا سے اپنے تن پر حرام ، حرام، حرام کرتا ہے ۔ بعد عدت جہاں چاہے مسماۃ مذکور یہ اپنا عقد ثانی کر سکتی ہے من مقر کو کوئی عذر و اعتراض نہ ہوگا۔ لہذا طلاق نامہ بحق مسماۃ ****** روبرو گواہان تحریر و تکمیل کر کے بھجوائی جا رہی ہے اور بر زبان بھی روبرو گواہان کہہ دیا گیا ہے۔
العبد: ****** (مقر) دستخط:
میں نے عدالت میں بولا کچھ نہیں ہے بس انہوں نے کہا اس پر دستخط کردو تو میں نے کر دیےبس ۔ اب ہم صلح کرنا چاہتے ہیں۔کیا اب صلح ممکن ہے یا تین طلاقیں واقع ہو گئی ہیں؟
وضاحت مطلوب ہے: (۱) خاوند کو معلوم تھا کہ اس میں تین طلاقیں لکھی ہوئی ہیں ؟ (۲) دستخط کرنے سے پہلے طلاقنامے کوپڑھا تھا یا نہیں؟
جواب وضاحت: (۱) جی (۲) اس نے پڑھ کر سائن کیے تھے۔
نوٹ اصل سائل کوئی اور ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں تین طلاقیں واقع ہو گئی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہےلہذا اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے ۔
توجیہ: طلاق نامے کی تحریر کتابت مستبینہ مرسومہ ہے جس پر دستخط کرنے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے اور شوہر کو طلاق نامے کے مضمون کا علم ہو تو جتنی طلاقیں لکھی ہوں اتنی ہی واقع ہوتی ہیں ۔مذكوره صورت ميں طلاق نامے کو پڑھ کر دستخط کرنے سے طلاق نامے کے ان الفاظ سے کہ "مسماۃ مذکوریہ کے تقاضہ طلاق پر من مقر اپنی منکوحہ مسماۃ کرن بی بی کو روبرو گواہان طلاق،طلاق،طلاق دے کر اپنی زوجیت سے آزاد کرتا ہے من مقر اسے اپنے تن پر حرام،حرام،حرام کرتا ہے "سے تین طلاقیں واقع ہو گئی ہیں کیونکہ یہ الفاظ طلاق کے لیے صریح ہیں ۔
فتاوی شامی(4/442)میں ہے:
الکتابة على نوعين:مرسومة، وغير مرسومة۔ ونعنى بالمرسومة أن يكون مصدرا ومعنونا مثل ما يكتب إلى الغائب،وغير المرسومة أن لا يكون مصدرا ومعنونا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينوي ۔
حاشیہ ابن عابدین(4/443) میں ہے:
ولو استكتب من آخر كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها وقع إن أقر الزوج أنه كتابة أو قال للرجل: ابعث به إليها، أو قال له: اكتب نسخة وابعث بها إليها، وإن لم يقر أنه كتابه ولم تقم بينة لكنه وصف الأمر على وجهه لا تطلق قضاء ولا ديانة ۔
بدائع الصنائع(4/479) ميں ہے:
وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: 230]
ہدایہ (2/132) ميں ہے:
وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة أو ثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها ۔
مداد الفتاویٰ جدید مطول (5/183) میں ہے:
”سوال: ایک شخص نے دوسرے سے کہا ایک طلاق لکھدو اس نے بجائے صریح کے کنایہ لکھدیا، آمر نے بغیر پڑھے یا پڑھائے دستخط کردیئے تو کیا حکم ہے اور دستخط کرنا شرعا کیا حکم رکھتا ہے؟ ۔۔۔ ۔۔۔الخ
جواب: اگر مضمون کی اطلاع پر دستخط کئے ہیں تو معتبر ہے ورنہ معتبر نہیں، قواعد سے یہی حکم معلوم ہوتا ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved