• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تحریری تین طلاق

استفتاء

بیان حلفی

***والد***۔۔۔۔۔بیان کرتا ہوں۔ جو کہ میرا عقد نکاح  ہمراہ ***سے 14 سال قبل ہو چکا ہے۔ ہماری ازدواجی زندگی خوشگوار رہی ہے اور دوران خانہ آبادی ہماری چار بیٹیاں تولد ہوئیں، جو زندہ و حیات ہیں۔ یہ کہ کچھ عرصہ پہلے گھر میں پریشانی بڑھ گئی اور میرے بڑے بھائی کی جانب سے بہت زیادہ دباؤ بڑھ گیا کہ میں اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کر لوں۔ 2015- 4- 11 کو جو طلاق نامہ عرضی نویس نے تحریر کیا اس کو میں طلاقِ ثلاثہ لکھنے کے لیے ہرگز نہ کہا تھا، تاہم میں نے اپنی ذہنی دباؤ کے زیر اثر اس پر دستخط کر دیے۔

میں نے اپنی بیوی کو اپنی زبان سے کبھی طلاق کا نہ کہا ہے اور نہ ہی طلاق دی ہے، میری چار بیٹیاں ہیں، میں اپنی بیوی کو طلاق نہیں دینا چاہتا۔ میرے بعض عزیز و اقارب کہتے ہیں کہ طلاق ہوگئی ہے۔ میں اپنا گھر بسانا چاہتا ہوں، اور اپنی بیوی کو اپنی زوجیت میں آباد رکھنا چاہتا ہوں۔ میں شوگر اور بلڈ پریشر کا مریض ہوں۔ اور اس صورتِ حال سے بہت پریشان ہوں۔ لہذا علماء کرام اور مفتیان دین اسلام سے قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ آیا کہ میں اپنی بیوی کو اپنی زوجیت میں آباد رکھ سکتا ہوں، اسی نکاح کے ساتھ یا تجدید نکاح کے ساتھ؟

الفاظ طلاق: ۔۔۔۔*** منکوحہ و زوجہ خود کو بروئے شریعت ۔۔۔ طلاق طلاق طلاق دیتا ہوں، اور اپنے نفس پر حرام قرار دیتا ہوں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

طلاق دینے کے لیے زبان سے کہنا ضروری نہیں ہوتا، لکھ کر دینے سے، یا لکھے ہوئے پر دستخط کر دینے سے بھی طلاق ہو جاتی ہے۔ لہذا مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں، نکاح مکمل طور سے ختم ہو گیا ہے، اب نہ صلح ہو سکتی ہے اور نہ رجوع کی گنجائش ہے۔

عن مجاهد قال كنت عند ابن عباس رضي الله عنه فجاءه رجل فقال إنه طلق امرأته ثلاثاً فسكت حتی ظننت أنه سيردها إليه فقال ينطلق أحدكم فيركب الأحموقة ثم يقول يا ابن عباس! يا ابن عباس! يا ابن عباس إن الله قال و من يتق الله يجعل له مخرجاً و أنك لم تتق الله فلا أجد لك مخرجاً عصيت ربك و بانت منك امرأتك. (سنن أبي داؤد)

مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس تھا کہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور یہ سوال کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس پر سکوت اختیار کیا۔ (ان کے شاگرد کہتے ہیں کہ) ہم نے خیال کیا کہ شاید وہ اس عورت کو واپس دلانا چاہتے ہیں، مگر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم خود حماقت کا ارتکاب کرتے ہو اور پھر کہتے اے ابن عباس! اے ابن عباس! اے ابن عباس!، بات یہ ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ سے نہ ڈرے تو اس کے لیے کوئی راہ نہیں نکل سکتی، جب تم نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی ہے (کہ طلاق دینے کے پسندیدہ طریقے کو چھوڑ کر طلاق دینے کا غیر پسندیدہ طریقہ اختیار کیا) تو تمہارے لیے کوئی گنجائش ہی نہیں۔ تمہاری بیوی اب تم سے بالکل جدا ہو گئی۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved