• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

تم میری طرف سے فارغ ہو

میرا نام***ہے، اور میں شادی شدہ ہوں، میری شادی کو تقریباً ساڑھے تین سال ہو چکے ہیں، اور میری ڈھائی سال کی

بیٹی ہے۔ میری بیوی شروع سے ہی ہر بات جو میں کہوں، اس کی نفی کرنا اپنا فرض سمجھتی تھی، حسب عادت میری مرضی کے خلاف اور میری اجازت کے بغیر اپنے گھر والوں کی مرضی سے محکمہ پولیس میں نوکری کرلی، اور ٹریننگ کے لیے پولیس چوہنگ سینٹر چلی گئی، اسی دوران نوکری کے نشہ میں اس کا رویہ دن بدن مزید گستا خانہ اور بد تمیز ہوتا گیا، مئی 2015ء میں میں نے فون کر کے حال پوچھنا چاہا، تو کہنے لگی کہ کیا مسئلہ ہے، مجھے کیوں بار بار فون کرتے ہو، کیا تکلیف ہے، میں نے کہا کہ میں تیرا شوہر ہوں، یہ کس طرح بات کر رہی ہو، کہنے لگی میری مرض میں جو مرضی کروں تم کون ہوتے ہو پوچھنے والے، میرا تیرے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اس بات پر ہم دونوں کے درمیان جھگڑا ہوا اور میں نے کہا کہ "تم میری فارغ ہو”، میرے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ میری نظر میں بھی تیری کوئی اہمیت نہیں ہے، یہ میرا تکیہ کلام ہے، کیونکہ گھر میں اور دوستوں میں یہ الفاظ اکثر استعمال کرتا ہوں کہ "آپ میری طرف سے فارغ ہیں”، اسی طرح میں نے اپنی بیوی کو یہ فقرہ تقریباً ایک ماہ تین چار مرتبہ اس کے غلط رویے کی وجہ سے کہا، اور میرے ذہن میں طلاق کا مطلب بھی نہیں تھا۔ لڑکی والوں نے میرے اس تکیہ کلام کا غلط مطلب لیتے ہوئے کہا کہ لڑکے نے طلاق دے دی ہے، اور اپنا مسئلہ خاندان کے معززین کے پاس لے گئے ہیں کہ ہمیں لڑکے والوں سے فارغ کیا جائے۔

جناب مفتی صاحب! مہربانی کر کے شریعت کی رُو سے اس مسئلہ کا حل بتائیں کہ طلاق ہوئی ہے یا کہ نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں لڑکے کے اس کہنے سے کہ "تم میری طرف سے فارغ ہو” ایک بائنہ  طلاق ہو گئی ہے، جس کی وجہ سے نکاح ختم ہو گیا ہے، عدت کے بعد عورت آزاد ہے، جہاں چاہے نکاح کرے۔ اور اگر میاں بیوی اکٹھے رہنا چاہیں تو اس کے لیے دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہو گا، جس میں گواہ بھی ہوں گے اور مہر بھی دوبارہ مقرر کرنا ہو گا۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved