- فتوی نمبر: 6-322
- تاریخ: 06 نومبر 2013
- عنوانات: خاندانی معاملات > منتقل شدہ فی خاندانی معاملات
استفتاء
***کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے، ان کے والدین زندہ نہیں، ان کے بیوی بچے بھی نہیں ہیں۔***کے بھائی بھی نہیں تھے، ان کی 3 بہنیں زندہ ہیں۔ ان کے ایک چچا تھے جن کا نام *** تھا، انہوں نے دو شادیاں کی ہوئی تھیں، پہلی شادی پاکستان میں کی تھی جس سے 6 بیٹے اور 4 بیٹیاں ہوئیں۔ ان میں سے صرف 2 بیٹیاں زندہ ہیں، البتہ فوت شدہ بچوں کی اولاد زندہ ہے۔ دوسری شادی ہندوستان میں کی جس سے 2 بیٹے اور ایک بیٹی ہوئی، ان میں سے ایک بیٹی اور ایک بیٹا زندہ ہیں۔
مرحوم کے چچا *** نے اپنے انڈیا والے بیٹے کو اپنی زندگی میں ان کا حصہ دے دیا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ از روئے شریعت***کی وراثت کیسے تقسیم کی جائے؟ کیا انڈیا والے بیٹے بیٹی کو بھی *** کی وراثت سے حصہ ملے گا؟ یا صرف ****
ورثاء کو ملے گا؟
خلاصہ یہ ہے کہ وفات کے وقت مرحوم کے یہ اقرباء زندہ تھے: 1۔ تین بہنیں، 2۔ ایک چچا کا بیٹا جو انڈیا میں رہتا ہے، 3۔ چچا کی فوت شدہ اولاد کے بچے، 4۔ چچا کی دو بیٹیاں پاکستان میں ایک چچا کی بیٹی انڈیا میں ہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں مرحوم کے کل ترکہ کے 9 حصے کیے جائیں جن میں سے 2-2 حصے ہر بہن کو دیے جائیں اور 3 حصے چچا عبد الخالق کے بیٹے کو جو انڈیا میں ہے اس کو دیے جائیں۔ صورتِ تقسیم یہ ہے:
3×3= 9
3 بہنیں چچا کا بیٹا چچا کی اولاد کی اولاد چچا کی بیٹیاں
3/2 عصبہ م م
2×3 1×3
6 3
2+2+2 3
نوٹ: میت کا اگر کوئی مسلمان رشتہ دار کسی دوسرے ملک میں ہو تو اس سے فرق نہیں پڑتا۔ وراثت میں سے اسے بھی حصہ ملے گا۔
(بخلاف المسلمين) محترز قوله فيما بين الكفار أي اختلاف الدار لا يؤثر في حق المسلمين كما في عامة الشروح. (رد المحتار: 10/ 542) فقط و الله تعالی أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved