• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر

ورثاء کے لیے وصیت

استفتاء

** اپنی وفات سے 6 ماہ قبل اپنی وراثت کی تقسیم اس طرح کی جبکہ ان کے ایک بیٹے اور ایک بھائی موجود تھے اور ان کی پہلی بیوی فوت ہوچکیں۔ پہلی بیوی کی دو بیٹیوں کے لیے 2 – 2 لاکھ روپے شادی کے لیے وصیت کی۔ پہلی بیوی کے دو بیٹوں کے لیے باقی ماندہ کیش رقم اور کاروبار دکان، دوسری بیوی، دوسری بیوی کا ایک بیٹا ، دوسری بیوی کی ایک بیٹی کے لیے ایک ایک لاکھ روپے کی وصیت کی۔ جبکہ پہلی بیوی کی پہلی بیٹی کی شادی پر ڈھائی لاکھ روپے اور دوسری بیٹی کی شادی پر پونے  تین لاکھ روپے خرچ آئے۔

شرعی حیثیت سے یہ وصیت قابل قبول ہے یا نہیں؟ اب جبکہ کارو بار پہلی بیوی کے دونوں بیٹے کر رہے تھے اور انتقال کے 10 ماہ بعد مکان خریدا گیا تو دوسری بیوی نے اپنے بیٹے کا نام مکان میں لکھوایا اور پہلی بیوی کے دونوں بیٹوں کے نام مکان لکھوایا۔ اب شرعی حیثیت سے تقسیم کی کیا ترتیب ہوگی؟ دوسری والدہ کا حصہ؟ بہنوں کا حصہ؟ بھائیوں کا حصہ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں مرحوم نے بعض ورثاء کے لیے جو وصیت کی ہے وہ جائز نہیں۔ البتہ اگر سب ورثاء بالغ ہوں اور وہ اجازت دے دیں تب درست ہے۔ باقی کل ترکہ کو 72 حصوں میں تقسیم کر کے 9 حصے مرحوم کی بیوی کو، اور 14 -14 حصے ہر ایک لڑکے کو اور 7- 7 حصے ہر ایک لڑکی کو ملیں گے۔ صورت تقسیم یہ ہے:

8×9= 72                                                        

بیوی          لڑکا      لڑکا       لڑکا      لڑکی     لڑکی     لڑکی

9                              63

9            14     14     14     7       7       7

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved