• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

کیا وتر کی نماز واجب ہے یا سنت ؟

استفتاء

جامع ترمذی کتاب: وترکا بیان حدیث نمبر: 454

وَرَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَغَيْرُهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ:‏‏‏‏ الْوِتْرُ لَيْسَ بِحَتْمٍ كَهَيْئَةِ الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ وَلَكِنْ سُنَّةٌ سَنَّهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . حَدَّثَنَا بِذَلِكَ َ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَاهُ مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاق نَحْوَ رِوَايَةِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ.

ترجمہ: وتر لازم نہیں ہے جیسا کہ فرض صلاۃ کا معاملہ ہے، بلکہ یہ رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے، اسے سفیان ثوری وغیرہ نے بطریق «أبی اسحاق عن عاصم بن حمزة عن علی» روایت کیا ہے اور یہ روایت ابوبکر بن عیاش کی روایت سے زیادہ صحیح ہے اور اسے منصور بن معتمر نے بھی ابواسحاق سے ابوبکر بن عیاش ہی کی طرح روایت کیا ہے۔[جامع ترمذی کتاب: وترکا بیان باب: وتر فرض نہیں ہے]

حدیث نمبر: 453 

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ:‏‏‏‏ الْوِتْرُ لَيْسَ بِحَتْمٍ كَصَلَاتِكُمُ الْمَكْتُوبَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنْ سَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏  إِنَّ اللَّهَ وِتْرٌ يُحِبُّ الْوِتْرَ فَأَوْتِرُوا يَا أَهْلَ الْقُرْآنِ  قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ،‏‏‏‏ وَابْنِ مَسْعُودٍ،‏‏‏‏ وَابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ.وَرَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَغَيْرُهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ:‏‏‏‏  الْوِتْرُ لَيْسَ بِحَتْمٍ كَهَيْئَةِ الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ وَلَكِنْ سُنَّةٌ سَنَّهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .

ترجمہ: علی ؓ کہتے ہیں:  وتر تمہاری فرض نماز کی طرح لازمی نہیں ہے  ١ ؎، بلکہ رسول اللہ  ﷺ  نے اسے سنت قرار دیا اور فرمایا: اللہ وتر  (طاق)   ٢ ؎ ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے، اے اہل قرآن!  ٣ ؎ تم وتر پڑھا کرو۔

امام ترمذی کہتے ہیں:  ١- علی ؓ کی حدیث حسن ہے،  ٢- اس باب میں ابن عمر، ابن مسعود اور ابن عباس ؓ سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ:  سنن ابی داود/ الصلاة ٣٣٦ (١٤١٦)، (الشطر الأخیر فحسب)، سنن النسائی/قیام اللیل ٢٧ (١٦٧٧)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١١٤ (١١٦٩)،  ( تحفۃالأشراف: ١٠١٣٥)، مسند احمد (١/٨٦، ٩٨، ١٠٠، ١٠٧، ١١٥، ١٤٤، ١٤٥، ١٤٨)، سنن الدارمی/الصلاة ٢٠٨ (١٦٢١) (صحیح) (سند میں ” ابواسحاق سبیعی مختلط ہیں، نیز عاصم میں قدرے کلام ہے، لیکن متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)

وضاحت:  1: اس سے معلوم ہوا کہ وتر فرض اور لازم نہیں ہے بلکہ سنت مؤکدہ ہے۔  2: اللہ وتر  ( طاق  )  ہے کا مطلب ہے کہ وہ اپنی ذات وصفات اور افعال میں یکتا ہے اس کا کوئی ثانی نہیں، صلاة الوتر کو بھی اسی لیے وتر کہا جاتا ہے کہ یہ ایک یا تین یا پانچ یا سات وغیرہ عدد میں ادا کی جاتی ہے اسے جفت اعداد میں پڑھنا جائز نہیں۔  3: صحابہ کرام ؓ اجمعین کو نبی اکرم  ﷺ  نے اہل قرآن کہا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ حدیث کو نہیں مانتے تھے، اہل قرآن کا مطلب ہے شریعت اسلامیہ کے متبع و پیروکار اور شریعت قرآن و حدیث دونوں کے مجموعے کا نام ہے، نہ کہ صرف قرآن کا، جیسا کہ آج کل قرآن کے ماننے کے دعویداروں کا ایک گروہ کہتا ہے، یہ گروہ منکرین حدیث کا ہے، حدیث کا منکر ہے اس لیے حقیقت میں وہ قرآن کا بھی منکر ہے۔

ان احادیث کی روشنی میں  بتا دیں کہ وتر واجب ہے یا سنت مؤکدہ ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

حنفیہ کی تحقیق میں وتر واجب ہے نہ کہ صرف سنت مؤکدہ کیونکہ دیگر احادیث میں ہے  کہ وتر حق ہے واجب  ہے نیز احادیث سے وتر کی قضا ء بھی ثابت ہے جو کہ عموما فرض یا واجب کی ہوتی ہے ۔ باقی رہی یہ بات کہ سوال میں مذکورہ حدیثوں میں وتر کے لازم ہونے کی نفی کی گئی ہے ۔

جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وتر واجب نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان حدیثوں میں وتر کے فرض نمازوں کی طرح حتمی اور لازم ہونے کی نفی کی گئی ہے اور اس سے حنفیہ کو بھی اختلاف نہیں کیونکہ واجب کا درجہ بہر حال فرض سے نیچے ہے اور سنت سے اوپر ہے ۔ اور رسول اللہ ﷺ کے اسے سنت قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ وتر کا وجوب سنت رسول ﷺ سے ثابت ہے ۔

ابو داود شریف (1/534)ہے :

عن ‌عبد الله بن بريدة ، عن ‌أبيه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «الوتر حق، فمن لم يوتر فليس منا، الوتر حق، فمن لم يوتر فليس منا، الوتر حق، فمن لم يوتر فليس منا

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وتر حق ہیں جو شخص وتر نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ، وتر حق ہیں جو شخص وتر نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں، وتر حق ہیں جو شخص وتر نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں۔

سنن دار قطنی (2/340) میں ہے :

عن أبي أيوب ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ‌الوتر ‌حق ‌واجب

حضرت ابو ایوبؓ  نبی کریم ﷺ سے روایت کرتےہیں کہ ” وتر حق ہیں واجب ہیں "

سنن دار قطنی (2/339) میں ہے :

عن أبي سعيد ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من نام عن وتره أو نسيه فليصله إذا أصبح أو ذكره»

حضرت ابو سعید ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص وتر کی نماز پڑھے بغیر سو گیا ، یا بھول گیا تو اسے چاہیے کہ صبح کے وقت وتر پڑھ لے یا جب اسے یاد آ جائے اس وقت پڑھ لے۔

بحر الرائق ( 2/40) میں ہے :

ووفق المشايخ بينهما بأنه فرض عملا واجب اعتقادا سنة ثبوتا ودليلا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved