- فتوی نمبر: 3-41
- تاریخ: 24 نومبر 2009
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
ایک شخص** کا انتقال ہوا ہے اس نے دو شادیاں کی تھیں ایک بیوی کا انتقال اس کی حیات میں ہی ہو گیا تھا۔ جبکہ دوسری حیات ہیں۔ دونوں بیویوں سے اس کے آٹھ بیٹے اور چھ بیٹیاں ہیں۔ ایک بیٹی کا انتقال بھی** کی حیات میں ہی ہو گیا تھا، جسی اولاد موجود ہے۔ **نے اپنی وراثت میں کچھ جائیداد چھوڑی ہے جس کی تفصیل یوں ہے کہ
1۔ دوسری بیوی کو ** نے نکاح کے وقت جس حصہ میں اس بیوی کی رہایش ہوئی کا آدھا حصہ دے دیا تھا۔ جس وقت اسے دیا
تھا اس وقت اس حصہ میں کسی کی رہائش اور سامان وغیرہ نہ تھا ۔ نیز اسے یہ بتایا کہ یہاں سے یہاں تک تمہارا حصہ ہے۔ **نے آدھے حصہ کے اس بیوی کے نام پر انتقال کے لیے ایکسائز کے دفتر میں درخواست بھی رکھی ہے۔
اس مکان کے باقی آدھے حصے کو**نے اسی بیوی سے ہونے والے پانچ بیٹوں کے نام اشٹام مع گواہوں کے تحریر کیا۔ اس کا قبضہ بھی انہیں پانچ بیٹوں کے پاس ہے۔ اس حصہ میں ایک بیٹے نے اپنے خرچہ سے اوپر کا پورشن بھی تعمیر کیا ہے۔ نیز دوسرے بیٹوں نے بھی اس حصہ میں اپنی ضرورت کی خاطر اپنی طرف سے تعمیری کام کروائے ہیں۔
3۔ ** کی آدھے مرلہ کی مارکیٹ میں ایک دکان ہے جس کو زید نے چار بیٹوں کے نام کر کے انہیں قبضہ بھی دے دیا تھا اور اپنا سرمایہ بی اس دکان سے نکال لیا تھا۔ اب ٹیکس انہی کے نام کا آتا ہے۔ تقسیم کریں تو قابل انتفاع نہ رہے گی۔
4۔** کی اس کے علاوہ مزید تین دکانیں ہیں جن میں سے دو کرایہ پر چڑھی ہوئی ہیں۔ اس کو لیٹر میں ایک بیٹے کے نام کیا مگر قبضہ نہیں دیا۔
5۔ ایک پلاٹ تقریباً چھ مرلہ کا ہے۔** کے بھائی نے زید کو مختار بنایا اور لیٹر بھی لکھا ہے اور بھائی نے** کے وفات کے بعد بھی کہا کہ یہ جگہ** کی ہے لیکن ٹیکس بھائی کے نام کا آتا تھا۔**نے اس پر دو گھر تعمیر کیے، دونوں کے درمیان سےایک راستہ نکلا دوسرے گھر کے لیے۔ نیز اس کا لیٹر ایک بیٹے کے نام ہے ، قبضہ نہیں دیا تھا۔ کیا** کے بھائی اس کو واپس لے سکتے ہیں؟ کیا ہبہ بیٹے کے نام درست ہے؟
اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ مذکورہ چیزوں میں کن کن چیزوں کا ہبہ صحیح ہو گیا اور کون کونسی چیزمیں ورثہ میں شمار ہو کر سب ورثاء میں تقسیم ہوں گی۔ نیز جہاں جہاں پر بعض بیٹوں نے اپنی طرف سے تعمیرات کی ہیں کیا وہ بھی زید کے ورثہ میں شمار ہو کر سب ورثاء میں تقسیم ہوں گی۔ نیز ورثہ تقسیم میں لا محالہ ایسی صورت حال پیش آئیگی کہ خود چیزوں کو تقسیم کیا جائے تو وہ چیزیں کام کی نہ رہیں گی تو پھر تقسیم کی کیا صورت ہوگی؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ جب **نے زندگی میں ہی تحریراً اور زبانی طور سے آدھا حصہ ( تین مرلے) بیوی کو اور باقی آدھا حصہ (ساڑھے تین مرلے جن کو اگر پانچ پر تقسیم کیا جائے تو کسی کام کا نہیں رہتا) پانچ بیٹوں کو دیا اور قبضہ بھی کرایا تو آدھا حصہ ( تین مرلے ) بیوی کا اور باقی آدھا حصہ پانچ بیٹوں کا ہے۔ اس میں دوسرے وارثوں کا کوئی حق نہیں۔
3۔ آدھا مرلے کی دوکان ( جو کہ چار بیٹوں پر تقسیم نہیں ہوسکتی وہ ) بھی جن چار بیٹوں کے نام کرائی اور ان کو قبضہ بھی کرایا تھا انہی کی ہے۔ باقی وارثوں کا اس میں حق نہیں۔
4۔5۔ جب ** نے زندگی میں کبھی اس کا ذکر نہیں کیا کہ میں نے یہ دوکانیں اور پلاٹ فلاں بیٹے کو دیے۔ اور نام کرانے کا تذکرہ کیا۔ اور نہ ہی اس بیٹے کو قبضہ کرایا تو صرف نام کرانے ( لیٹر لکھنے ) سے ہبہ تام نہیں ہوا۔ اور نہ ہی اس بیٹے کی ملکیت میں آئے لہذا ان دکانوں اور اس پلاٹ میں میراث جاری ہوگی۔
اسی طرح **کے بھائی نے زید کو جو پلاٹ دیا اور قبضہ بھی کرایا۔ اور ہر قسم کے تصرف کا مختار بھی بنایا تو وہ پلاٹ زید کی ملکیت ہو گئی اب زید کے فوت ہونے کے بعد بھائی کو واپس لینے کا اختیار نہیں۔
اگر تقسیم کر نے سے کوئی چیز قابل تقسیم نہیں رہتی تو اس چیز کی تقسیم قیمت کے اعتبار سے ہوگی، یعنی یا تو ایک وارث اس چیز کو رکھ لے اور باقیوں کو ان کے حصے کے بقدر رقم دے دے۔ اور اگر کوئی بھی رکھنے کے لیے تیار نہ ہو تو اس چیز کو فروخت کرکے سارے وارثوں کو ان کے حصہ کے بقدر رقم دی جائے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved