- فتوی نمبر: 5-8
- تاریخ: 13 اپریل 2012
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
*** کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ تمام بیٹے بیٹیاں شادی شدہ ہیں اور *** کی زوجہ فوت ہوچکی ہے۔
*** نے اپنے بڑے بیٹے کو علیحدہ کاروبار کر کے دیا ہے اور اس کو اس کا حصہ دے دیا ہے۔ اب بڑا بیٹا بھی لکھ کر دینے لیے تیار ہے کہ اس نے اپنا حق وصول کر لیا ہے اور باپ کی وراثت میں میرا کوئی حصہ نہیں ہے۔ *** اپنی زندگی میں ہی اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو حصہ دینا چاہتا ہے۔ اس بارہ میں چندد ریافت طلب امور ہیں۔
1۔ کیا *** اپنی زندگی میں اپنے بیٹوں کو کچھ ہبہ کر سکتا ہے؟
2۔ جو ہبہ بچوں کو دیا جا چکا ہے اس کو وراثت میں شامل کیا جائے گا یا نہیں؟
3۔ *** کے تین بیٹے اس کے کاروبار میں اس کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے مل کر اس کاروبار کو خوب پھیلایا ہے۔ اور کاروبار سے کچھ علیحدہ خرچ لیا ہے اور نہ ہی کاروبار سے کوئی تنخواہ وغیرہ لی ہے۔ تو کیا ان بیٹوں کا کچھ زیادہ استحقاق ہوگا؟ کیا انہیں وراثت میں کچھ زائد ملے گاان کی خدمات کے عوض؟
4۔ اگر کوئی بیٹی مالی طور پر مستحکم ہو تو وہ اپنا حصہ نہ لینا چاہے تو اس کے بارہ میں کیا حکم ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
وراثت کا تعلق انسان کے فوت ہونے کے بعد سے ہے۔ زندگی میں جو کچھ دیا جائے وہ وراثت نہیں بلکہ ہبہ ہوتا ہے۔
1۔ اگر اپنی زندگی میں والد اپنی اولاد کو ساری یا کچھ جائیداد وغیرہ دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے بہتر یہ ہے کہ تمام اولاد کو خواہ بیٹے ہوں یا بیٹیاں برابر برابر حصہ دے۔ اور اگر لڑکے کو لڑکی کا دوگنا دے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔ اور اگر کسی معقول وجہ سے کسی کو زیادہ دینا چاہے تو اس کی بھی اجازت ہے جبکہ کسی کو نقصان پہنچانا مقصود نہ ہو۔
2۔ جو چیزیں ہبہ کی جاچکی ہیں وہ وراثت میں شامل نہیں ہوں گی بشرطیکہ ان پر متعلقہ لوگوں کا شرعی طریقے سے قبضہ ہوگیا ہو۔
3۔ ان بیٹوں کو زیا دہ حصہ دیا جاسکتا ہے۔
4۔ *** کی زندگی میں اگر وہ بخوشی ایسا کرنا چاہے تو کرسکتی ہے ۔ لیکن *** کی وفات کے بعد اگر وراثت تقسیم ہو تو پہلے وہ اپنا حق لے لے پھر دیگر وارثوں کو ہبہ کرے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved