• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

نشے میں وائس میسج کے ذریعے طلاق دینے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے شوہر نے مجھے  وائس میسج کے ذریعے طلاق دی ہے، وہ میسج انہوں نے میری بہن کو کیا تھا اس وقت ان کے پاس کوئی گواہ موجود نہیں تھا اور وہ شراب کے نشے میں تھے، میری 6 سال کی بیٹی ہے، کیا مذکورہ میسج سے طلاق ہو گئی ہے؟

شوہر کا بیان:

جس وقت میں نے طلاق کا میسج کیا اس سے 4 گھنٹے پہلے میں نے شراب کا نشہ کیا تھا  یعنی آٹھ بجے میں نے شراب کا نشہ کیا تھا اور 12 بجے میں نے طلاق کا میسج کیا تھا، اس وقت بھی میں نشے میں تھا۔

شوہر کی طرف سےبیوی کی بہن کو بھیجا گیا وائس میسج:

’’میری بات سنو میں تمہارے گھر گیا تھا اور میں شراب پی کر گیا تھا اس عورت کے پیچھے، ٹھیک ہے نا، اس نے کہیں پر بھی میری عزت نہیں رکھی، اس نے میرا کہیں مان نہیں رکھا، اور جب میں نشے کی حالت میں اپنے گھر واپس آ رہا تھا تو اس نے مجھے ایک مرتبہ بھی کال کر کے نہیں پوچھا کہ تم جی رہے ہو یا مر رہے ہو؟ تم صحیح سلامت گھر پہنچے کہ نہیں؟ احساس ہو تو یہ چیزیں دیکھی جاتی ہیں، اور میں نے اسے یہ بھی کہا تھا کہ تم نے میرے بہن بھائیوں کو خوش نہیں رکھنا، صرف مجھے خوش رکھنا ہے، ٹھیک ہے، اس نے ایسا کچھ بھی نہیں ہونے دیا، اور میں بول کے آیا تھا کہ کل میں اسے لے جاؤں گا، میں نے یہ بات بول دی تھی، صحیح ہے، اور میں اس کی کال کا انتظار کر رہا تھا، اس نے مجھے کال تک نہیں کی ابھی تک، ٹھیک ہے نا بہن، تو اب میری طرف سے طلاق اور طلاق اور طلاق ہی ہے، اور میری بد دعا ہے اس کو کہ ساری زندگی اس کو کبھی شوہر کا پیار نصیب نہ ہو۔‘‘

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں   تینوں طلاقیں واقع ہو گئی ہیں، جن کی وجہ سے  بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے  ، لہذا اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔

توجیہ:مذکورہ صورت میں  اگرچہ شوہر کا دعوی یہ ہے کہ اس نے نشے کی حالت میں طلاق دی ہے، لیکن  اول تو نشہ کی حالت میں بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے اور جن بعض حضرات کے نزدیک واقع نہیں ہوتی ان کے نزدیک بھی اس صورت میں واقع نہیں ہوتی جب کلام میں اختلاط وہذیان غالب ہو، جبکہ مذکورہ  صورت میں   شوہر نے بیوی کی بہن کو تقریبا ایک منٹ کا جو وائس میسج بھیجا ہے اس میں اختلاط و ہذیان کا کوئی شائبہ بھی معلوم نہیں ہوتا، لہذا مذکورہ صورت میں تین طلاقیں واقع ہو گئی ہیں۔

ردالمحتار (32/44) میں ہے:(قوله أو سكران) السكر: سرور يزيل العقل فلا يعرف به السماء من الأرض. وقال: بل يغلب على العقل فيهذي في كلامه، ورجحوا قولهما في الطهارة والأيمان والحدود. وفي شرح بكر: السكر الذي تصح به التصرفات أن يصير بحال يستحسن ما يستقبحه الناس وبالعكس. لكنه يعرف الرجل من المرأة قال في البحر: والمعتمد في المذهب الأول نهر. قلت: لكن صرح المحقق ابن الهمام في التحرير أن تعريف السكر بما مر عن الإمام إنما هو السكر الموجب للحد، لأنه لو ميز بين الأرض والسماء كان في سكره نقصان وهو شبهة العدم فيندرئ به الحد وأما تعريفه عنده في غير وجوب الحد من الأحكام فالمعتبر فيه عنده اختلاط الكلام والهذيان كقولهما. ونقل شارحه ابن أمير حاج عنه أن المراد أن يكون غالب كلامه هذيانا، فلو نصفه مستقيما فليس بسكر فيكون حكمه حكم الصحاة في إقراره بالحدود وغير ذلك لأن السكران في العرف من اختلط جده بهزله فلا يستقر على شيءدرمختار مع ردالمحتار (4/509) میں ہے:كرر لفظ الطلاق وقع الكل.(قوله كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق.بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved