• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تین دفعہ’’طلاق طلاق طلاق‘‘کہنے سے طلاق کا حکم

استفتاء

میری بیٹی ** کی شادی 8 فروری 2004 کو ****سے ہوئی ،پھر اس کے بطن سے چار بچے پیدا ہوئے  ،اور تمام جہیز اور قیمتی سامان اس کے شوہر کے پاس ہے،اس نے   ***کو 2013-12-05 کو تین بار  طلاق دی ،اب **نے دوسری شادی کی ہوئی ہے اور وہ کہتا ہےکہ میں دوسری بیوی کو طلاق دے دوں گا آپ میرے سے صلح کرلو ،اب وہ طلاق کے بارے میں نہیں مان رہا،لہٰذا شرعی اور چاروں اماموں کا فتوی دیاجائے۔

بیوی کا بیان :

گھر میں کسی بات پر جھگڑا ہو رہا تھا تو میرے شوہر نے تین دفعہ مجھے کہہ دیا کہ ’’طلاق، طلاق، طلاق‘‘لڑائی کے دوران شوہر غصے میں تھا لیکن ان سے کوئی ہاتھا پائی نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی انہوں نے کوئی توڑ پھوڑ وغیرہ کی تھی۔

شوہر کا بیان:

گھر میں کسی بات پر جھگڑا ہوا تو میں نے اس دوران اپنی بیوی کو ’’طلاق،طلاق ‘‘کہا تیسری دفعہ طلاق نہیں کہا  تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر واقعتاً بیوی نے شوہر سے تین دفعہ طلاق کے الفاظ خود سنے ہیں یا اسے کسی معتبر ذریعے سے شوہر کا تین دفعہ طلاق دینا معلوم ہوچکا ہے تو بیوی کے حق میں تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں اور بیوی شوہر پر حرام ہوچکی ہے لہٰذا بیوی کے لیے شوہر کے ساتھ رہنا جائز نہیں۔

توجیہ:طلاق کے معاملے میں بیوی کی حیثیت قاضی کی طرح ہوتی ہے اور وہ اپنے علم کے مطابق عمل کرنے کی پابند ہوتی ہے ۔ نیز طلاق کے الفاظ میں اگرچہ صراحۃ  بیوی کی طرف نسبت نہیں پائی جا رہی لیکن معنی اضافت پائی جا رہی ہے کیو نکہ عام طور پر طلاق کا لفظ بیوی کو ہی بولا جاتا ہےاور سوال میں بھی چونکہ شوہر بیوی سے ہی مخاطب تھا لہٰذا سیاق وسباق سے بھی یہی معلوم ہورہا ہے کہ شوہر نے طلاق کے الفاظ بیوی کو ہی بولے ہیں۔

نوٹ: تین طلاقیں چاہے  اکھٹی دی جائیں یا الگ الگ دی جائیں بہر صورت تین ہی ہیں ۔جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم وتابعین ؒ اور ائمہ اربعہ ؒ کا یہی مذہب ہے۔

مسلم شریف (2/962 حدیث نمبر 1471 ط بشری ) میں ہے: عن نافع عن ابن عمر رضي الله تعالى عنهما قال ……… اما انت طلقتها ثلاثا فقد عصيت ربك فيما امرك به من طلاق امرأتك وبانت منك’’نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے (اکٹھی تین طلاقیں دینے والے سے کہا ) تم نے اپنی بیوی کو (اکٹھی )تین طلاقیں دی ہیں تو بیوی کو طلاق دینے کے بارے میں جو تمہارے رب کا حکم (بتایا ہوا طریقہ) ہے اس میں تم نے اپنے رب کی نافرمانی کی ہے اور تمہاری بیوی تم سے جدا ہوگئی۔‘‘ابو داؤد شریف(1/666 حدیث نمبر 2197 ط بشری) میں ہے:عن مجاهد قال: كنت عند ابن عباس رضي الله عنهما فجاءه رجل فقال: انه طلق امراته ثلاثا. قال: فسكت حتى ظننت انه رادها اليه. ثم قال: ينطلق احدكم فيركب الحموقة  ثم يقول يا ابن عباس يا ابن عباس وان الله قال (ومن يتق الله يجعل له مخرجا ) وانك لم تتق الله فلا اجد لك مخرجا عصيت ربك وبانت منك امراتك’’مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک شخص  ان کے پاس آیا اور کہا کہ اس نے اپنی بیوی کو(اکٹھی)  تین طلاقیں دے دی  ہیں تو (کیا گنجائش ہے اس پر) عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ اتنی دیر تک خاموش رہے کہ مجھے یہ خیال ہونے لگا کہ (حضرت کوئی صورت سوچ کر ) اسے اس کی بیوی واپس دلا دیں گے پھر انہوں نے فرمایا تم میں سے ایک شروع ہوتا ہے تو حماقت پر سوار ہو جاتا ہے اور (تین طلاقیں  دے بیٹھتا ہے ) پھر آکر کہتا ہے اےابن عباس اےابن عباس (کوئی راہ نکالیئے کی دہائی دینے لگتا ہے ) حالانکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے ومن یتق الله یجعل له  مخرجا(جو کوئی اللہ سے ڈرے تو اللہ اس کے لیے خلاصی کی راہ نکالتے ہیں۔)‘‘تم نے اللہ سے خوف نہیں کیا  (اور تم نے اکٹھی تین طلاقیں دے دیں جو کہ گناہ  کی بات ہے) تو میں تمہارے لئے کوئی راہ نہیں پاتا (اکٹھی تین طلاقیں دے کر) تم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور تمہاری بیوی تم سے جدا ہوگئی۔

علامہ بدرالدین العینی  رحمہ اللہ صحیح بخاری شریف کی شرح عمدۃ القاری (جلد1 صفحہ232 )میں تحریر فرماتے ہیں :مذهب جماهير العلماء من التابعين ومن بعدهم من الاوزاعي والنخعي والثوري و ابو حنيفه واصحابه ومالك واصحابه والشافعي واصحابه واحمد واصحابه و اسحاق وابو ثور وابو عبيدة واخرون كثيرون على ان من طلق امراته ثلاثا يقعن ولكنه ياثممرقاۃ المفاتيح شرح مشكاۃ المصابيح ( جلد6صفحہ436) میں ہے:قال النووي اختلفوا في من قال لامراته انت طالق ثلاثا فقال مالك والشافعي واحمد وابو حنيفه والجمهور من السلف والخلف يقع ثلاثا…وفيه أيضاً:وذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه ‌يقع ‌ثلاثا(6/437)فتاوی ہندیہ(2/198) میں ہے:(الفصل الأول في الطلاق الصريح)وهو كأنت طالق ومطلقة وطلقتك وتقع واحدة رجعيةفتاوی ہندیہ(2/198) میں ہے:وإذا قال لامرأته أنت طالق وطالق وطالق ولم يعلقه بالشرط إن كانت ‌مدخولة ‌طلقت ‌ثلاثا وإن كانت غير مدخولة طلقت واحدةدرمختار مع رد المحتار(4/509)میں ہے‌كرر ‌لفظ ‌الطلاق وقع الكل، وإن نوى التأكيد دين(قوله ‌كرر ‌لفظ ‌الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق.رد المحتار(4/449)میں ہے:والمرأة ‌كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه.فتاوی ہندیہ(2/411)میں ہے:وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهدايةردالمحتار(4/444)میں ہے:ولا ‌يلزم ‌كون ‌الإضافة صريحة في كلامه؛ لما في البحر لو قال: طالق فقيل له من عنيت؟ فقال امرأتي طلقت امرأته. اهـ. على أنه في القنية قال عازيا إلى البرهان صاحب المحيط: رجل دعته جماعة إلى شرب الخمر فقال: إني حلفت بالطلاق أني لا أشرب وكان كاذبا فيه ثم شرب طلقت. وقال صاحب التحفة: لا تطلق ديانة اهـ وما في التحفة لا يخالف ما قبله لأن المراد طلقت قضاء فقط، لما مر من أنه لو أخبر بالطلاق كاذبا لا يقع ديانة بخلاف الهازل، فهذا يدل على وقوعه وإن لم يضفه إلى المرأة صريحا، نعم يمكن حمله على ما إذا لم يقل إني أردت الحلف بطلاق غيرها فلا يخالف ما في البزازية ويؤيده ما في البحر لو قال: امرأة طالق أو قال طلقت امرأة ثلاثا وقال لم أعن امرأتي يصدق اهـ ويفهم منه أنه لو لم يقل ذلك تطلق امرأته، لأن العادة أن من له امرأة إنما يحلف بطلاقها لا بطلاق غيرها، فقوله إني حلفت بالطلاق ينصرف إليها ما لم يرد غيرها لأنه يحتمله كلامه، بخلاف ما لو ذكر اسمها أو اسم أبيها أو أمها أو ولدها فقال: عمرة طالق أو بنت فلان أو بنت فلانة أو أم فلان، فقد صرحوا بأنها تطلق، وأنه لو قال: لم أعن امرأتي لا يصدق قضاء إذا كانت امرأته كما وصف كما سيأتي قبيل الكنايات وسيذكر قريبا أن من الألفاظ المستعملة: الطلاق يلزمني، والحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام، فيقع بلا نية للعرف إلخ. فأوقعوا به الطلاق مع أنه ليس فيه إضافة الطلاق إليها صريحا، فهذا مؤيد لما في القنية، وظاهره أنه لا يصدق في أنه لم يرد امرأته للعرف، والله أعلم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved