- فتوی نمبر: 15-252
- تاریخ: 14 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں حضرات مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شاپنگ مال( shopping mall )میں دکانیں (shops) فروخت ہورہی ہیں، نقد رقم پر بھی اور اقساط (installments) پر بھی۔
(فی الحال صرف زمین ہے، دکانیں نہیں بنیں) اگر اقساط پر ادائیگی کی جائےتو تین سال میں اقساط مکمل ہوں گی، اس وقت تک دکانیں بنی ہوں گی اور ہمیں دکان مل جائے گی اور اگر یکمشت رقم کی ادائیگی کی جائے تو آپ کو کرایہ (rent) بھی ملنا شروع ہو جائے گا حالانکہ ابھی صرف زمین موجود ہے, دکانیں موجود نہیں، یعنی تین سال تک ہمیں کرایہ ملتا رہے گا یہاں تک کہ دکانیں بن جائیں. اس کے بعد ہمیں دکان حوالہ کر دی جائے گی۔ لہذا مذکورہ صورت میں یکمشت خریدنا جائز ہو گا ؟ یا اقساط پر ؟ یا دونوں صورتیں جائز ہیں کہ ناجائز ؟ برائے کرم رہنمائی فرمائیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت استصناع کی ہے اور خریداری دکانوں کی ہو رہی ہے ،لہذا اس صورت میں دوکانیں قسطوں پر بھی خرید سکتے ہیں اور یکمشت ادائیگی کرکے بھی خرید سکتے ہیں، البتہ یکمشت خریدنے کی صورت میں کرایہ لینا جائز نہ ہوگا، کیونکہ دکانیں ابھی وجود میں نہیں آئیں اور غیر موجود چیز کا کرایہ لینا جائز نہیں۔
فی شرح المجلة:ماده391
لایلزم فی الاستصناع دفع الثمن حالا ای وقت العقد۔
فی فقه البیوع:2/1165
لایجب ان یکون الثمن معجلا کما فی السلم بل یجوز ان یکون معجلا او موجلا او مقسطا ویجوز ایضا ان تکون اقساط الثمن مرتبطة بالمراحل المختلفة لانجاز المشروع اذا کانت تلک المراحل منضبطة فی العرف بحیث لاینشأ فیها نزاع۔
فی الهندیة:3/14
ولو آجر دارا او عقارا قبل القبض من البائع او غیره لایجوز عند الکل کذا فی فتا وی قاضی خان
© Copyright 2024, All Rights Reserved