- فتوی نمبر: 25-4
- تاریخ: 15 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت > بیع فاسد کے احکام
استفتاء
ہم لوگ انگلینڈ میں مقیم تھے اور میرے ابو اچانک بہت مذہبی ہوگئے۔انہوں نے میری امی کو زیور پہننے سے منع کردیا اور کہا کہ یہ اپنی بہنوں میں بانٹ دو۔ مگر میری نانی نے وہ زیور بیچ کر میری امی کے لیے میری دوسری خالہ سے پلاٹ خرید لیا جو اس وقت80000(اسی ہزار) روپے کا تھا۔1988 میں ہم پاکستان آگئے ، میرے ابو کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک لڑکیوں کی تربیت کے لیے مناسب نہیں ۔ پہلے ہم دادا ، دادی کے ساتھ رہے پھر میرے ابو نے اسی پلاٹ پر اپنا گھر بنالیا۔ اس گھر کے ساتھ والا گھر بھی میرے ابو نے میری خالہ سے خرید لیا اور ان کو رجسٹری کے پیسے بھی ادا کردیئے۔مگر میری خالہ امریکہ چلی گئی جس کی وجہ سے رجسٹری میرے ابو کے نام نہ ہو سکی۔مگر خالہ کہتی رہی کہ جب آؤں گی تو رجسٹری کروادوں گی۔ اس کے بعد میرے ابو بھی باہر چلے گئے اور یوں رجسٹری میری خالہ کے نام پر ہی رہی۔
میرے ابو اسلام کی خدمت کی بنیاد پر انگلینڈ ہی میں رہے اور ہم پاکستان میں رہے۔ انہوں نے کبھی ہمیں اور امی کو اپنے پاس نہیں بلایا اور نہ خود مستقل ہمارے پاس آئے۔خرچہ وہ ہمیں بھیجتے رہے۔میری امی کے گردے فیل ہو گئے میری عمر اس وقت 13 برس تھی جبکہ میری ایک بہن 11 اور دوسری 4 برس کی تھی۔ میں اور میری خالہ امی کو ہسپتالوں میں لے کر گھومتے تھے۔ اور میری امی کے علاج کا خرچہ بھی میرے ابو نے نہیں بھیجا جو کہ وہ اس وقت کہتے تھے کہ میرے حالات ٹھیک نہیں ۔اس کے بعد میری امی نے ابو کو بہت کہا کہ بیٹیوں کی شادیاں کردیں وہ اس پر بھی نہیں مانے۔
مختصر یہ کہ میری امی کے گردوں کے ٹرانسپلانٹ کا خرچہ بھی خالہ نے اٹھایا اور ابو نہیں آئے۔ مرنے سے پہلے امی بہت دکھی تھیں ، انہوں نے خالہ (جن کے نام ہمارا پلاٹ اور گھر تھا) کو کہا کہ یہ گھر میری بچیوں کے نام کرنا ، ان کا باپ ان کو کچھ نہیں دے گا۔ اس کے بعد ہم بہنوں کی شادیاں ہماری خالہ نے کیں،ابو نہیں آئے ۔ابو خالہ کو کہتے تھے کہ گھر میرے نام کردیں خالہ کہتی تھیں کہ میری بہن نے کہا تھا کہ گھر بیٹیوں کے نام کرنا ہے۔ ابو نے کہا کہ گھر بیٹیوں کے نام کیا تو میری بیٹیوں پر حرام ہے ۔ خالہ بوڑھی ہو رہی تھی تو انہوں نے ابو کی اجازت کے بغیر یہ گھر ہم تین بہنوں کے نام پر کردیا ۔ اس لیے کہ ان کو ان کے بعد اپنے بیٹوں پر اعتبار نہیں تھا۔ہم دل سے مانتے ہیں کہ یہ گھر ابو کا ہے صرف مصلحت کے طور پر ہم نے بچانے کے لیے نام لگوایا۔ اب ہم ابو کو کہتے ہیں کہ ابو گھر بیچ کر ہمارے حصے دے دیں تاکہ ہم گھر بنالیں۔
میں کرائے پر رہتی ہوں مگر ابو گھر بیچنے پر نہیں مانتے۔ہم نے کبھی نہیں سوچا کہ ان کی اجازت کے بغیر گھر بیچ کر پیسہ کھا لیں اور اپنی آخرت تباہ کرلیں۔ مگر اب مسئلہ یہ ہے کہ گھر ایک سکول کو کرایے پر دیا ہے جس کا مالک اب کرایہ دینے میں بہت تنگ کر رہا ہے اور قبضے کا خدشہ ہے ۔ جب اس سے آخری بار بات کی تو اس نے کہا کہ آپ میرا کیا کر سکتے ہیں اگر کرایہ نہ دوں یا واجب الاد پیسے نہ دوں ۔ اگر وہ گھر پر stay لے لے تو ہم کورٹ کچہریوں کے چکر نہیں لگا سکتے ۔ ہم اگر یہ گھر بیچ کر اسی نیت سے کسی اور جگہ گھر ابو کے ہی نام پر لے لیں کہ یہ انہی کا گھر ہے صرف قبضے سے بچ جائیں اور گھر ہاتھ سے نہ جائے ۔اور جب کبھی ابو پاکستان آئیں تو گھر کے پیپر ان کو دے دیں اور ان کو کہہ دیں کہ یہ لیں آپ کا گھر ۔
مگر ابھی ان کو بتائے بغیر گھر بیچ کر کہیں اور لے سکتے ہیں ؟ہماری نیت یہ نہیں کہ ہم ان کے گھر کا پیسہ بانٹ لیں۔ نہ ہم ایسا کریں گے ورنہ گھر ہمارے نام پر کب سے ہے ہم کب کا بیچ دیتے۔ دوسرا امی نے جو زیور بیچ کر پلاٹ لیا تھا اس کا حصہ ہمیں مل سکتا ہے؟ ابو کہتے ہیں کہ امی کو زیور لے دیا تھا اس لیے اس پلاٹ پر امی کا حق نہیں ۔ جبکہ امی کہتی تھیں کہ وہ زیور تحفہ تھا یہ نہیں کہا تھا کہ یہ پلاٹ کی قیمت ہے۔ اس صورت میں کیا حکم ہے ؟
سوال1) کیا ہم قبضہ بچانے کے لیے ابو کی اجازت کے بغیر گھر بیچ کر انہی کے نام کی نسبت سے کہیں اور گھر لے لیں؟
نمبر2) کیا امی والے پلاٹ پر ہمارا حصہ بنتا ہے ؟
ہمارے والد صاحب کو پلاٹ پر قبضے کےخطرے کا علم ہے اور وہ کہتے ہیں کہ پلاٹ چاہے چلا جائے لیکن اس کو بیچنا نہیں ہے ۔
وضاحت مطلوب ہے: آپ کی والدہ کو زیور (جس کو بیچ کر آپ کی والدہ نے پلاٹ خریدا تھا) سسرال کی طرف سے ملا تھا یا میکے کی طرف سے ؟
جواب وضاحت: یہ زیور میری والدہ کو میکے کی طرف سے ملا تھا ۔
مزید وضاحت: یہ دونوں پلاٹ(والدہ کے زیور سے خریدا ہوا اور بعد میں جو پلاٹ والد صاحب نے خالہ سے خریدا ،جس کے متعلق سوال ہے)میری خالہ سے خریدے گئے ہیں ۔ان میں سے ایک پر ابو نے گھر بنا لیا اور ایک ابھی تک خالی ہے ۔ خالی پلاٹ کے بارے میں امی کا کہنا تھا کہ یہ میرا ہے۔1988 کو عمرے سے واپسی پر والد صاحب نے والدہ کو کچھ زیور دیا تھا اور جب 2006 میں امی نے اس پلاٹ کے بارے میں یہ کہا کہ یہ میرا ہے اور میں جب چاہوں اس کو بیچ دوں تو میرے والد صاحب نے کہا کہ میں نے آپ کو 1988میں زیور دیا تھا جس پر والدہ نے کہا کہ وہ تو تحفہ تھا اور آپ نے اس وقت اس بات کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا کہ یہ پلاٹ کی قیمت ہے ۔اب وہ دونوں جگہیں(مکان اور خالی پلاٹ) سکول کو کرائے پر دی ہیں اور ان دونوں پر قبضے کا خطرہ ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
جو پلاٹ آپ کی والدہ کے زیورات بیچ کر خریدا گیا ہے اس میں آپ بہنیں 3/2 حصے کی شریک ہیں اور آپ کے لیے اس کا بیچنا بھی جائز ہے باقی حصہ آپ کے والد صاحب کا ہے اور وہ خطرات سے آگاہ ہونے کے باوجود بھی گھر بیچنے پر راضی نہیں ہیں لہذا آپ کے لیے اس گھر میں والدصاحب کا حصہ بیچنا جائز نہیں ہے ۔
بدائع الصنائع (4/340)میں ہے :ومنها:وهو شرط انعقاد البيع للبائع ان يكون مملوكا للبائع عند البيع فان لم يكن لا ينعقدشرح المجلۃ (4/14)میں ہے:كل واحد من الشركاء في شركة الملك اجنبي في حصة الآخر ليس واحد وكيلا عن الآخر فلا يجوز تصرف احدهما في حصة الآخر بدون اذنهشرح المجلۃ (4/25)میں ہے:احد الشريكين ان شاء باع حصته من شريكه وان شاء باعهامن اجنبي بدون اذن شريكه۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved