- فتوی نمبر: 2-58
- تاریخ: 21 مارچ 2003
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
میرے خاوند نے کسی سے دھاگا خریدا تھا۔ انہون نے کسی دھاگے والے کے پیسے دینے تھے وہ دھاگے والے کو پیسے دینے کے لیے مجھ سے مانگتے تھے ۔ میرے پاس گھر کے خرچے میں سے جوڑے ہوئے پیسے موجود تھے۔ وہ کچھ پیسے غلط جگہ بھی لگاتے تھے۔میں ان کو غلط کرنے سے منع کرتی تھی کہ اللہ ناراض ہوگا۔ لیکن وہ منع کے بعد بھی وہ کام کرلیتے تھے پھر بھی ہمیں ظاہر ہوجاتاتھا۔ پھر میں نے ان سے قرآن پا ک اٹھواکر یقین کرلیا کہ اب وہ ایسا نہیں کریں گے۔ لیکن پھر انہوں نے ایسا ہی کام کرلیا۔ اب میر ا یقین ختم ہوچکاتھا کہ وہ ایسا کرنے سے باز نہیں آئیں گے۔ گھر کا گزارہ بھی مشکلات میں پڑا ہواتھا۔ تین ساڑھے تین ہزار خرچے میں سے چوری چھپے جمع کئے ہوئے تھے۔ وہ مجھ سے مانگتے تھے کہ میں نے دھاگے والے کے دینے ہیں تو میں غصے کی وجہ سے منع کردیتی تھی کہ میرے پاس نہیں ہیں۔ انہوں نے کافی ماہ تک مانگے میں منع کردیتی تھی کہ میرے پاس نہیں ہیں ۔ اس کے بعد وہ اچانک فوت ہوگئے تو میں نے اپنے والد اوربيٹے کو بازار میں کئی بار بھیجا کی تلاش کرے لیکن ہمیں نام کا بھی نہیں پتہ تھا کہ کس کے دینے ہیں۔اب میرادل چاہتاہے کہ ان کو آخرت میں نہ دینا پڑے۔اب ان کو فوت ہوئے ایک سال ساڑھے چار ماہ ہوچکے ہیں۔ لیکن دل پریشان رہتاہے کہ مسئلہ حل ہوجائے اس کے بارے میں مسئلہ بتادیں۔ اس مسئلےکا جواب لکھ دیں کہ کیا کرناہے؟
وضاحت مطلوب ہے:دھاگہ خریدے کے بارے میں وضاحت کی جائے کہ دھاگہ کا کاروبار تھا یا وقتی ضرورت کے لیے اور کتنی مقدار میں خریداتھا؟
جواب: پہلے ہم دھاگہ نقد خریدتے تھے، دوتین بار ہی ادھار خریداتھا۔ ایک بوری کے پیشے دیتے تھے اور دوسرا ادھار لیتے تھے۔ پھر اس سے ایک سال تک کام چلاتے رہے اور پیسے نہیں دے سکے ۔پیسوں کی مقدار 2100روپے بوریے کے دینے تھے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
بصورت مسئولہ سائلہ کو چاہیے کہ مزید ایک دوسال انتظار کرے اگر اس مدت میں دھاگے والے کا علم ہوجائے تو 2100روپے دھاگےوالے کودیدیئے جائیں۔اوراگر اتنی مدت میں بھی علم نہ ہو تو دھاگے والے کی طرف سے کسی غریب کو بطور صدقہ کے دیدیئے جائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved