- فتوی نمبر: 28-240
- تاریخ: 12 مارچ 2023
- عنوانات: عبادات > نماز > نماز تراویح کا بیان
استفتاء
1۔ اگر تراویح میں قرآن خلاف تجوید پڑھا جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟
2۔ اگر معیاری قرآن پڑھنے والا نہ ملے تو پھر کیا کرنا چاہیے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
خلاف تجوید کی دو صورتیں ہیں:
1۔لحن جلی2۔لحن خفی۔دونوں صورتوں میں نماز مکروہ ہوگی البتہ لحن جلی کی بعض صورتوں میں نماز بھی فاسد ہوجاتی ہے۔
2۔اگر کہیں بھی ایسا امام نہ ملے جو کم از کم لحن جلی سے بچتا ہو تو آپ اکیلے تراویح پڑھ سکتے ہیں۔ اگر کہیں ایسا امام ملے جو کم از کم لحن جلی سے بچتا ہو تو ان کے پیچھے نماز پڑھیں۔
فتاوی قاضی خان علی ہامش الہندیہ(1/238)میں ہے:
ولاينبغي للقوم أن يقدموا في التراويح الخوشخوان ولكن يقدموا الدرستخوان فان الامام اذا كان يقرء بصوت حسن يشغل عن الخشوع و التدبرو التفكر وكذا لوكان الامام لحانالابأس بأن يترك مسجده۔
جمال القرآن (3)میں ہے:
تجويد كے خلاف قرآن پڑهنا يا غلط پڑھنا یا بے قاعدہ پڑھنا لحن کہلاتا ہے،اور یہ دو قسم پر ہے،ایک یہ کہ ایک حرف کی جگہ دوسرا حرف پڑھ دیا،…………ان غلطیوں کو لحن جلی کہتےہیں اور یہ حرام ہے،اور بعض جگہ اس سےمعنی بگڑ کر نماز جاتی رہتی ہےاور دوسری قسم یہ کہ ایسی غلطی تونہیں کی لیکن حرفوں کے حسین ہونے کے جو قاعدے مقرر ہیں ان کے خلاف پڑھا……..یہ غلطی پہلی غلطی سے ہلکی ہےیعنی مکروہ ہےلیکن بچنا اس سے بھی ضروری ہے۔
آپ کے مسائل اور ان کا حل(4/189) میں ہے:
سوال: سورۃ مزمل کی ایک آیت کے ذریعہ تاکید کی گئی ہے کہ قرآن ٹھہر ٹھہر کر پڑھو، اس کے برعکس تراویح میں حافظ صاحبان اس قدر روانی سے پڑھتے ہیں کہ الفاظ سمجھ میں نہیں آتے، اگر وہ ایسا نہ کریں تو پورا قرآن وقت مقررہ پر ختم نہیں کرسکتے، باپ اور بیٹا دونوں حافظ ہیں، بیٹا باپ سے زیادہ روانی سے پڑھتا ہے جس پر لوگوں نے باپ کو حافظ ریل اور بیٹے کو حافظ انجن کے لقب سے نوازا ہے اور وہ اب اسی نام سے پہچانے جاتے ہیں، کیا تراویح میں اس طرح پڑھنا درست ہے؟
جواب: تراویح کی نماز میں عام نمازوں کی نسبت ذرا تیز پڑھنے کا معمول تو ہے مگر ایسا تیز پڑھنا کہ الفاظ صحیح طور پر ادا نہ ہوں اور سننے والوں کو سوائے يعلمون تعلمون کے سمجھ نہ آئے، حرام ہے، ایسے حافظ کے بجائے الم تر كيف سے تراویح پڑھ لینا بہتر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved