- فتوی نمبر: 27-303
- تاریخ: 17 ستمبر 2022
- عنوانات: عبادات > روزہ و رمضان
استفتاء
میں رمضان میں مسافر تھا۔جس دن میں اپنے گھر واپس آیا اس دن سفر کی حالت میں عزیمت پر عمل کرتے ہوئے میں نے روزہ رکھا تھا لیکن گھر واپسی کے بعد افطار سے پہلے اپنی بیوی سے جماع کرلیا۔اس صورت میں مجھ پر صرف روزہ کی قضاء لازم ہے یا کفارہ بھی دینا ہو گا؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں آپ کے ذمہ صرف روزہ کی قضاء لازم ہے کفارہ لازم نہیں ہے، البتہ روزہ رکھنے کے بعد اس کا توڑنا چونکہ سخت گناہ کی بات ہے لہٰذا مذکورہ صورت میں توبہ واستغفار کرنا ضروری ہے۔
توجیہ: مسافر کے ذمے حالتِ سفر میں روزہ رکھنا فرض نہ تھا بلکہ روزہ چھوڑنے کی رخصت تھی جب روزہ توڑنے کا کامل جُرم نہ پایا گیا تو صرف قضا لازم ہوگی کفارہ لازم نہ ہوگا۔
الدر المختارمع تنویر الابصار(3/478)میں ہے:
(ولو نوى مسافر الفطر) أو لم ينو (فأقام ونوى الصوم في وقتها) قبل الزوال (صح) مطلقا (ويجب عليه) الصوم (لو) كان (في رمضان) لزوال المرخص (كما يجب على مقيم إتمام) صوم (يوم منه) أي رمضان (سافر فيه) أي في ذلك اليوم (و) لكن (لا كفارة عليه لو أفطر فيهما)للشبهة في أوله وآخره.
وفى الشامية:(قوله كما يجب على مقيم إلخ) لما قدمناه أول الفصل أن السفر لا يبيح الفطر، وإنما يبيح عدم الشروع في الصوم، فلو سافر بعد الفجر لا يحل الفطر.قال في البحر: وكذا لو نوى المسافر الصوم ليلا وأصبح من غير أن ينقض عزيمته قبل الفجر ثم أصبح صائما لا يحل فطره في ذلك اليوم، ولو أفطر لا كفارة عليه. اهـ.
قلت: وكذا لا كفارة عليه بالأولى لو نوى نهارا فقوله ليلا غير قيد (قوله فيهما) أي في مسألة المسافر إذا أقام ومسألة المقيم إذا سافر كما في الكافي النسفي وصرح في الاختيار بلزوم
الكفارة في الثانية.قال ابن الشلبي في شرح الكنز: وينبغي التعويل على ما في الكافي أي من عدمه فيهما.قلت: بل عزاه في الشرنبلالي إلى الهداية والعناية والفتح أيضا (قوله للشبهة في أوله وآخره) أي في أول الوقت في المسألة الأولى وآخره في الثانية فهو لف ونشر مرتب.
مسائل بہشتی زیور(1/406) میں ہے:
کفارہ اس وقت واجب ہوتا ہے جب روزہ توڑنے کا جرم کامل درجے میں پایا جائے اور اگر روزہ توڑنا کامل درجے کا نہ ہو تو کفارہ واجب نہیں ہوتا۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved