• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ميت كی قضاء نمازوں كے فديے كا حکم

استفتاء

اگر کسی کا انتقال 29سال کی عمر میں ہو گیا اور انکے ذمے کئی سالوں کی نمازیں ہوں اور پھر مرنے سے پہلے فدیے کی وصیت بھی نہیں کی تھی اب ان کے گھر والوں کو اس کی فکر ہوئی اور انھوں نے فدیہ دینے کا سوچا مگر نمازیں اتنی زیادہ ہیں کہ  گھر والوں پر مشقت آرہی ہے تو ایسی صورت میں کیا صرف استغفار کرنا چاہیے یا جتنی حیثیت ہو وقت کے ساتھ ساتھ فدیہ ادا کرتے رہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں  چونکہ میت نے فدیے کی وصیت نہیں کی اس لیے گھر والوں پر فدیہ لازم تو نہیں ہےالبتہ  اگر گھر والے ادا کرنا چاہیں تو اپنی وسعت کے مطابق جتنا فدیہ ادا کر سکیں اتنا ادا کر دیں  اور باقی تھوڑا تھوڑاادا کرتے رہیں اور ساتھ ساتھ  اس میت کے لیےاستغفار بھی کرتے رہیں۔

الدر المختار مع رد المحتار (2/ 424)ميں ہے:

(وإن) لم يوصو (تبرع وليه به جاز) إن شاء الله ويكون الثواب للولي اختيار

(قوله إن شاء الله) قبل المشيئة ‌لا ‌ترجع ‌للجواز ‌بل للقبول كسائر العبادات وليس كذلك، فقد جزم محمد – رحمه الله – في فدية الشيخ الكبير وعلق بالمشيئة فيمن ألحق به كمن أفطر بعذر أو غيره حتى صار فانيا، وكذا من مات وعليه قضاء رمضان وقد أفطر بعذر إلا أنه فرط في القضاء وإنما علق لأن النص لم يرد بهذا كما قاله الأتقاني، وكذا علق في فدية الصلاة لذلك، قال في الفتح والصلاة كالصوم باستحسان المشايخ.

الدر المختار مع رد المحتار (2/ 72)میں ہے:

(‌ولو ‌مات ‌وعليه ‌صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة.

(قوله يعطى) بالبناء للمجهول: أي يعطي عنه وليه: أي من له ولاية التصرف في ماله بوصاية أو وراثة فيلزمه ذلك من الثلث إن أوصى، وإلا فلا يلزم الولي ذلك لأنها عبادة فلا بد فيها من الاختيار، فإذا لم يوص فات الشرط فيسقط في حق أحكام الدنيا للتعذر، بخلاف حق العباد فإن الواجب فيه وصوله إلى مستحقه لا غير، ولهذا لو ظفر به الغريم يأخذه بلا قضاء ولا رضا، ويبرأ من عليه الحق بذلك إمداد.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved