- فتوی نمبر: 29-157
- تاریخ: 10 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
1) ایک گاڑی عمرو و بکر کے درمیان مشترک ہے ،جبکہ ایک گاڑی کا مالک صرف عمرو ہے ، عمرو نے اپنی ذاتی گاڑی زید کو 17 لاکھ میں قسطوں پر فروخت کر دی ، اس کے بعد بکر و عمرو نے اپنی مشترکہ گاڑی بھی زید کو قسطوں پر فروخت کر دی ۔ یہ دوسری گاڑی بڑی تھی اور اس کی قیمت 35 لاکھ کے قریب تھی ، دوسری گاڑی کی ڈاؤن پیمنٹ (یکمشت رقم ) کے طور پر زید نے جو رقم دینی تھی اس کے عوض میں زیدنے ان کو پہلی والی گاڑی دی ،کیا یہ صورت جائز ہے ؟
نوٹ: عمرو نے جو پہلی گاڑی زید کو قسطوں پر فروخت کی تھی اس وقت اس گاڑی کی قیمت 17 لاکھ لگائی تھی اور جس وقت اس نے وہ گاڑی ڈاؤن پیمنٹ کے طور پر وصول کی اس وقت اس گاڑی کی قیمت 15 لاکھ لگائی تھی ۔
2) نیز یہ بھی بتا دیں کہ اگر ڈاؤن پیمنٹ کے طور پر گاڑی لیتے ہوئے اس کی قیمت 17 لاکھ ہی رکھی جائے تو کیا یہ صورت جائز ہو گی ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
پہلی صورت جائز نہیں کیونکہ پہلی صورت میں عمرو نے وہ گاڑی 17 لاکھ کی بیچی تھی اور بعد میں ثمن کی ادائیگی سے پہلے ہی وہ گاڑی 15 لاکھ کی واپس خرید رہا ہے ۔ عمرو اگرچہ اپنی بیچی ہوئی گاڑی اپنے دین کی مد میں لے رہا ہےلیکن چونکہ دین کو کسی اور جنس میں وصول کرنا بھی بیع ہی کے حکم میں ہوتا ہے لہذا مذکورہ صورت میں شراء ما باع باقل مما باع قبل نقد الثمن لازم آ رہا ہے جو کہ جائز نہیں ۔ دوسری صورت میں ( یعنی جب گاڑی واپس 17 لاکھ میں خریدے ) چونکہ عمرو اپنی بیچی ہوئی گاڑی اتنے میں ہی واپس لے گا جتنے میں فروخت کی تھی اس لیے اس صورت میں شراء ما باع باقل مما باع قبل نقد الثمن کی خرابی لازم نہ آئے گی اور کوئی اور خرابی بھی اس میں نہیں ہے لہذا یہ صورت جائز ہو گی ۔
تبيين الحقائق شرح کنزالدقائق ( 4/55 ) میں ہے :
رجلان باعا عبدا بينهما بألف فقالا بعناكه بألف كل نصف بخمسمائة ثم اشتراه أحدهما بخمسمائة قبل النقد فسد في نصفه؛ لأنه شراء ما باع بأقل مما باع قبل نقد الثمن وصح في نصيب شريكه بنصف خمسمائة؛ لأنه ما باع ولا بيع له. ولو قالا بعناك نصيب فلان بخمسمائة ثم قالا بعناك نصيب فلان بخمسمائة ثم اشترى أحدهما كله بخمسمائة فسد في نصيبه؛ لأن نصفه وهو الربع باعه بنفسه ونصفه وهو الربع بيع له، وأما نصيب صاحبه فيفسد في نصفه وهو الربع؛ لأنه باعه له وصح في الربع الآخر فيدفع ثمنه؛ لأنه ما باع ولا بيع له وإن اشترياه معا في هذه الصور صح شراء كل واحد منهما في ثمنه بثمن الثمن؛ لأنه لو اشتراه أحدهما صح شراؤه في الربع فإذا اشترى كل واحد منهما نصفا شائعا صح شراء كل واحد منهما في نصف ذلك وهو الثمن ضرورة ولو باعاه بألف ثم اشترياه بخمسمائة صح شراء كل واحد منهما في ربعه؛ لأن كل واحد منهما اشترى نصفا شائعا نصفه فيما باع فيفسد ونصفه فيما باع شريكه فيصح في نصفه الذي لم يبعه له بل باعه لنفسه ولو باعه مع وكيله بألف ثم اشتراه الموكل بخمسمائة لا يصح؛ لأن أحد النصفين باعه بنفسه والنصف الآخر بيع له ولو اشتراه الوكيل فسد في النصف الذي باعه هو وصح في النصف الآخر؛ لأنه ما باع ولا بيع له ولو باع الوكيل كله ثم اشتراه أحدهما لا يصح أما الوكيل فلأنه باع، وأما الموكل فلأنه بيع له
شرح الزیادات قاضی خان ( 3/843) میں ہے :
عبد بين رجلين، فباعاه من رجلٍ بألف درهم إلى سنة، ثم اشتراه أحدهما بخمسمائة حالّة، جاز شراءه في نصف العبد بنصف الثمن الثاني، وبطل في النصف الآخر؛ لأن بيع كل واحد منهما منصرف إلى نصيبه خاصّة، حملا لتصرّفه على جهة الأصالة والملك.ولهذا لو انفرد أحدهما ببيع النصف، ينصرف بيعه إلى نصيبه خاصّة؛ حملا على الصحة، فكان كل واحد منهما بائعا نصيبه، أجنبيا عن نصيب الآخر، فإذا اشتراه أحدهما بخمسمائة، فسد شراءه فيما باع هو لما قلنا، وجاز شراءه في نصيب صاحبه؛ لأنه في نصيب صاحبه ليس ببائع، ولا بيع له. وفساد البيع في نصيبه لا يتعدّى إلى الباقي؛ لأنه فساد ضعيف، لمكان أن شبهة الربا مجتهد فيها، فلا يؤثر في الباقي؛ لأن فيه اعتبار شبهة الشبهة، وذلك لا يجوز……………ولو قالا: “بعناك هذا العبد بألف، بعناك نصيب كل واحد منّا بخمسمائة”، أو قالا ابتداءً: “بعناك نصيب كل واحد منا بخمسمائة”، ثم اشترى أحدهما قبل استيفاء الثمن جميع العبد بخمسمائة، جاز شراءه في الربع بربع خمسمائة، لأن شراء نصيبه لا يجوز، لأن نصف نصيبه باع هو بنفسه، ونصف نصيبه باع له شريكهـ بأمره، فلا يجوز شراءه. أيضًا. وأما نصيب صاحبه، فنصف ذلك باع هو وكالةً بتوكيل صاحبه، فلا يجوز له أن يشتريه، ونصفه باع صاحبُه بنفسه، فكان له أن يشتريه؛ لأنه أجنبيّ عن ذلك، فلهذا جاز شراءه في نصف النصف، وهو الربع بربع الخمسمائة
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved