استفتاء
سانڈے کا تیل جوڑوں کے درد کے لیے بہت مفید ہے، کیا اس تیل سے اگر مالش کی ہو تو نماز سے پہلے غسل کرنا ضروری ہے یا بغیر غسل کے بھی نماز پڑھ سکتے ہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
انٹرنیٹ پر دستیاب معلومات اور ویڈیوز کے مطابق اور لاہور میں سانڈے کا تیل بیچنے والوں کے مطابق تیل نکالنے سے پہلے سانڈے کو ذبح کرکے اس کا خون بہایا جاتا ہے پھر پیٹ چاک کرے چربی نکالی جاتی ہے جس سے تیل بنا کر مالش کے کام میں لایا جاتا ہے۔
شریعت میں جن جانوروں کا کھانا حلا ل نہیں ہے ان کو شرعی طریقے سے ذبح کرنے سے اگرچہ وہ حلال تو نہیں ہوتے لیکن ایک قول کے مطابق ان کا گوشت اور چربی پاک ہوجاتی ہے لہٰذا اس چربی سے جو تیل بنایا جائے گا وہ پاک ہوگا اور نماز کے وقت اسے دھونے کی ضرورت نہ ہوگی تاہم اگر دھونے میں کوئی خاص دشواری نہ ہو تو دھو لینا چاہیے۔
المحيط البرہانی فی الفقہ النعمانی (6/ 57) میں ہے:
وكرهوا أيضاً سباع الهوام، نحو اليربوع وابن عرس والسنجاب والسنور والفيل والدنق، وكرهوا أيضاً جميع الهوام الذي سُكناها في الأرض نحو الفأرة والوزغ والقنفذ وسام أبرص والحباب، وجميع هوام الأرض إلا الأرنب، فإنه يحل أكله.
الاختيار لتعليل المختار (5/ 14) ميں ہے:
وكذا سائر هوام الأرض وما يدب عليها وما يسكن تحتها، وهي الحشرات كالفأرة والوزغة واليربوع والقنفذ والحية ونحوها ; لأن جميع ذلك من الخبائث
شامی (6/308) میں ہے:
(قوله تقدم في الطهارة ترجيح خلافه) وهو أن اللحم لا يطهر بالذكاة والجلد يطهر بها اهـ ح. أقول: وهما قولان مصححان، وبعدم التفصيل جزم في الهداية والكنز هنا، نعم التفصيل أصبح ما يفتى به. هذا، وفي الجوهرة: واختلفوا في الموجب لطهارة ما لا يؤكل لحمه هل هو مجرد الذبح أو الذبح مع التسمية؟ والظاهر الثاني وإلا يلزم تطهير ما ذبحه المجوس اهـ لكن ذكر صاحب البحر في كتاب الطهارة أن ذبح المجوسي وتارك التسمية عمدا يوجب الطهارة على الأصح، وأيده بأنه في النهاية حكى خلافه بقيل
تبيين الحقائق (5/ 295)ميں ہے:
(قوله: واليربوع وابن عرس من سباع الهوام) والهوام بتشديد الميم قال الأتقاني جمع الهامة وهي الدابة من دواب الأرض، وجميع الهوام نحو اليربوع وابن عرس والقنفذ مما يكون سكناه الأرض والجدر مكروه أكله لأن الهوام مستخبثة
تنویر مع الدر (1/396) میں ہے:
(وما) أي إهاب (طهر به) بدباغ (طهر بذكاة) على المذهب (لا) يطهر (لحمه على) قول (الاكثر إن) كان (غير مأكول) هذا أصح ما يفتى به، وإن قال في الفيض: الفتوى على طهارته.
شامی (1/397) میں ہے:
(قوله هذا أصح ما يفتى به) أفاد أن مقابله مصحح أيضا، فقد صححه في الهداية والتحفة والبدائع، ومشى عليه المصنف في الذبائح كالكنز والدرر، والأول مختار شراح الهداية وغيرهم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved