• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مفقود کا میراث میں حصہ

استفتاء

میرا نام ****ہے۔ مجھے آ پ سے زمین کی تقسیم کے بارے میں ایک فتویٰ چاہیے۔ میری نانی اور میرا دادا جو کہ 6 بہن بھائی ہیں ان 6بہن بھائیوں میں سے 2 بہنیں اور 1 بھائی فوت ہوگیا ہے اور 1بہن جو کہ  میری نانی ہیں اور 1 بھائی جو کہ میرے داد کے بھائی ہیں  زندہ  ہیں اور 1 بھائی 45 سال سے لاپتہ  ہے۔ انکی شادی نہیں ہوئی تھی۔18 سال کی عمر میں لاپتہ ہوئے تھے۔ گمشدگی کے وقت والدین اور سب بہن بھائی حیات تھے۔اب صرف ایک بہن اور ایک بھائی حیات ہیں۔اور سب وفات پا چکے ہیں۔

اب ان 6بہن بھائیوں کی وراثتی زمین فروخت ہورہی ہے اب جو بہن  اور بھائی  فوت ہو گئے ہیں ان کا حصہ ان کی اولاد لے رہی ہے اور 1 زندہ بہن جو کہ میری نانی ہیں اپنا حصہ لے رہی ہیں اور 1 زندہ بھائی جو کہ اپنا اور اپنے گمشدہ بھائی کا حصہ بھی خود لے  رہے ہیں ۔مجھے آپ سے لاپتہ بھائی کے حصہ کی تقسیم کے حوالے سے فتویٰ چاہیے کہ گمشدہ بھائی کے حصہ کی تقسیم کا شرعی حکم کیا  ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں   لا پتہ  بھائی کے ہم عمر لوگ جب تک حیات ہیں لاپتہ بھائی کو بھی زندہ شمار کیا جائے گا لہٰذا   ان کی زمین اور باقی مال کو  محفوظ رکھا جائے گا، اگر لاپتہ بھائی  اپنے ہم عمر لوگوں کے  مرنے سے پہلے واپس آجائیں تو ان کا مال ان کو دے دیا جائے گا، اور اگر وہ اپنے ہم عمر لوگوں کے مرنے تک واپس نہ آئیں تو  ان کے ہم عمروں کے مرنے کے بعد عدالت میں درخواست دے کر لاپتہ بھائی  کی موت کا حکم حاصل کیا جائے گا، اس میں احتیاط ہے۔ اور اگر عدالتی کاروائی میں دشواری ہو تو عدالتی کاروائی کے بغیر ہی   لاپتہ بھائی کے مال کو ان کے  اس وقت موجود   شرعی ورثاء میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کردیا جائے گا۔(جس کی تفصیل اس وقت موجود ورثاء  کا ذکرکے معلوم کی جاسکتی ہے)

اس کے بعد بھی اگر لاپتہ بھائی  واپس آ گئے تو ان کے مال میں سے جو کچھ خرچ ہو چکا ہو گا اس کا مطالبہ نہ ہو گا اور جو باقی ہو گا وہ ان کو واپس دیدیا جائے گا۔

سراجی (ص: 54) ميں ہے:

المفقود حي في ماله حتى لا يرث منه أحد و ميت في مال غيره حتى لا يرث من أحد و يوقف ماله حتى يصح موته أو تمضي عليه مدة، و اختلف الروايات في تلك المدة ففي ظاهر الرواية أنه إذا لم يبق أحد من أقرانه حكم بموته …………….فإذا مضت المدة فماله لورثته الموجودين عند الحكم بموته.

فتاوٰی شامی (456/6) میں ہے:

(وهو في حق نفسه حي) بالاستصحاب، هذا هو الأصل فيه (فلا ينكح عرسه غيره ولا يقسم ماله)…….. (وميت في حق غيره فلا يرث من غيره)….(ولا يستحق ما أوصى له إذا مات الموصي بل يوقف قسطه إلى موت أقرانه في بلده على المذهب) لأنه الغالب واختار الزيلعي تفويضه للإمام……..قلت وفي واقعات المفتين لقدري أفندي معزيا للقنية أنه إنما يحكم بموته بقضاء لأنه أمر محتمل فما لم ينضم إليه القضاء لا يكون حجة ( فإن ظهر قبله ) قبل موت أقرانه (حيا فله ذلك) القسط.(وبعده يحكم بموته في حق ماله يوم علم ذلك) أي موت أقرانه (فتعتد) منه (عرسه للموت ويقسم ماله بين من يرثه الآن و)

(قوله: وهو في حق نفسه حي) مقابله قوله الآتي وميت في حق غيره. وحاصله أنه يعتبر حيا في حق الأحكام التي تضره وهي المتوقفة على ثبوت موته ويعتبر ميتا فيما ينفعه ويضر غيره، وهو ما يتوقف على حياته؛ لأن الأصل أنه حي وأنه إلى الآن كذلك استصحابا للحال السابق والاستصحاب حجة ضعيفة تصلح للدفع لا للإثبات: أي تصلح لدفع ما ليس بثابت لا لإثباته.

 قوله: (بقضاء الخ) هو أحد قولين. قال القهستاني: وفي الفاء من قوله: فتعتد عرسه دلالة على أنه يحكم بموته بمجرد انقضاء المدة فلا يتوقف على قضاء القاضي كما قال شرف الائمة. وقال نجم الائمة القاضي عبد الرحيم: نص على أنه يتوقف عليه كما في المنية اه، وما قاله شرف الائمة موافق للمتون سائحاني.

قلت: لكن المبتادر من العبارة أن المنصوص عليه في المذهب الثاني. ثم رأيت عبارة الواقعات عن القنية أن هذا: أي ما روى عن أبي حنيفة من تفويض موته إلى رأي القاضي نص على أنه إنما يحكم بموته بقضاء الخ.

قوله: (فإن ظهر قبله) هذه القبلية لا مفهوم لها وإن ذكرها الكثيرون سائحاني، ولذا قال في البحر: وإن علم حياته في وقت من الاوقات يرث من مات قبل ذلك الوقت من أقاربه اه. لكن لو عاد حيا بعد الحكم بموت أقرانه قال ط: أن الظاهر أنه كالميت إذا احيي والمرتد إذا اسلم، فالباقي في يد ورثته له و لا يطالب بما ذهب …….. تأمل.

(قوله: فله ذلك القسط) أي الموقوف له من الوصية وكذا الإرث كما علمت

امداد الاحکام (578/4) میں ہے:

’’حاصل یہ ہوا نمبر 1: صورت مسئولہ میں بعد موت اقران کے بدون قضاء قاضی کے ورثہ کا مال مفقود پر قبضۂ مالکانہ کر لینا جائز ہے

  على قول شرف الأئمة. و اخترناه في حق الأموال تيسيراً و أما في الزوجة فنختار قول نجم الأئمة احتياطاً في باب  الفروج‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved