- فتوی نمبر: 33-101
- تاریخ: 28 اپریل 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > طلاق کا بیان > صریح الفاظ سے طلاق کا حکم
استفتاء
بیوی کا بیان:
میرے شوہر نے 7 جولائی 2019 کو تین دفعہ طلاق کا لفظ استعمال کر کے مجھے گھر سے نکالا۔ انہوں نے مجھے مخاطب کر کے کہا میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔ اس کے بعد ایک ماہ میں مفتی کے سامنے قسم کھا کر کہا کہ میں نے طلاق نہیں طاق کہا تھا اور میں ان کے ساتھ چلی گئی۔
اس کے بعد تقریباً ڈیڑھ سال پہلے میری اور میرے شوہر کی لڑائی ہوئی اور انہوں نے مجھے مار پیٹ کر کہا میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں اور اس کے بعد مجھے اپنے گھر میں ہی رکھا اور میں نے یہ معاملہ اپنے ماں باپ کو نہیں بتایا اور صلح کر لی۔
اب مؤرخہ 3 جنوری 2025 کو انہوں نے مار پیٹ کر کمرے میں بٹھایا اور سب سے پہلے میری والدہ کو فون کر کے کہا میں نے تمہاری بیٹی کو تین دفعہ طلاق دی دوسرا فون میرے بھائی ***کو کیا اور کہا میں نے تمہاری بہن کو تین طلاق دی اور تیسرا فون میرے والد *** کو کیا اور کہا میں نے تمہاری بیٹی کو تین طلاق دی اور میں اپنے والد کے گھر پر ہوں۔
شوہر کا بیان:
میں محمد ***حلفاً بیان دے رہا ہوں کہ میں نے اس کے ابو اور بھائی سے فون پر کہا تھا کہ اس کو آ کر لے جائیں ورنہ میں اس کو طلاق دے دوں گا اور اب وہ کہہ رہے ہیں کہ تم نے طلاق دی تھی اس واقعے کو تقریباً دو مہینے ہو گئے ہیں اب وہ اپنے ماں باپ کے گھر پر ہے۔ میری بیوی اور اس کے گھر والے جھوٹ بول رہے ہیں ، میں نے اسے کبھی طلاق نہیں دی۔رہنمائی فرمائیں۔
لڑکی کےوالد کا بیان:
***کے شوہر نے مجھے کال کی اور تین مرتبہ کہا “میں نے اس کو طلاق دے دی ہے اسے آ کر لے جاؤ”
لڑکی کی والدہ کا بیان:
***کے شوہر نے مجھے کال کی تو میری بہو نے فون اٹھایا اس نے اس کو کہا کہ “میں نے *** کو طلاق دی طلاق دی طلاق دی” پھر مجھ سے بات ہوئی تو مجھے بھی اس نے یہی کہا اور تین بار طلاق دے دی۔
لڑکی کے بھائی ***کا بیان:
*** کے شوہر نے مجھے فون کیا اور کہا “میں نے آپ کی بہن کو طلاق دے دی ہے میں نے آپ کی بہن کو طلاق دے دی ہے میں نے آپ کی بہن کو طلاق دے دی ہے اسے آ کر لے جاؤ”
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہوچکی ہے لہذا اب صلح یا رجوع کی گنجائش باقی نہیں رہی۔
توجیہ: طلاق کے معاملے میں عورت کی حیثیت قاضی کی طرح ہوتی ہے لہذا اگر وہ طلاق کے الفاظ خود سُن لے یا اسے معتبر ذرائع سے شوہر کا طلاق دینا معلوم ہو جائے تو اس کے لیے اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ مذکورہ صورت میں جب پہلی بار عورت نے خود طلاق کا لفظ سنا تو اسی وقت اس کے حق میں تین طلاقیں پڑ گئیں اور عورت کے حق میں شوہر کا انکار معتبر نہیں۔ نیز چونکہ شوہر نے طلاق کے الفاظ بیوی کے والدین، بیوی کے بھائی اور بھابھی کو بھی کہے ہیں جس کی ان کے بیان سے تصدیق ہو چکی ہے لہٰذا شوہر کا انکار کرنا معتبر نہیں۔
بدائع الصنائع(187/3) میں ہے:
وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر لقوله عز وجل “فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره” [البقرة: ٢٣٠]
شامی (449/4) میں ہے:
والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه
الدرالمختار مع ردالمحتار(509/4) میں ہے:
كرر لفظ الطلاق وقع الكل
قوله: [كرر لفظ الطلاق] بان قال للمدخولة انت طالق انت طالق او قد طلقتك قد طلقتك او انت طالق قد طلقتك او انت طالق وانت طالق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved