ڈالر یا کوئی بھی غیر ملکی کرنسی اپنے پاس رکھنے کی مختلف صورتیں
- فتوی نمبر: 31-70
- تاریخ: 03 مئی 2025
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت > کرنسی کی خرید و فروخت کے احکام
استفتاء
آجکل بہت سے لوگ ریال یا ڈالر (یا کوئی بھی غیر ملکی کرنسی) لے کر اپنے پاس رکھتے ہیں اور ان کی مختلف اغراض ہوتی ہیں جس کی مختلف صورتیں ہیں ۔ان صورتوں کی تفصیل درج ذیل ہے۔
(1)کچھ لوگوں کے پاس ابتدءاً ڈالر ہوتے ہیں ، چاہے ان کو کمائی( اجرت ، ثمن) کی صورت میں ملے ہوں یا ہدیہ، وراثت وغیرہ کی صورت میں ملے ہوں، یہ لوگ ڈالر یا ریال وغیرہ اس ڈر سے تبدیل نہیں کرواتے کہ روپے کی قدر گرجائے گی یعنی اپنی کرنسی کو ڈی ویلیو ہونے سے بچانا مقصود ہوتا ہے۔
(2) ان میں سے بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو مہنگا ہونے پر ڈالر یا ریال بیچ کر نفع کمانے کی نیت سے ڈالر کیش نہیں کرواتے یعنی ان کے پیشِ نظر اپنی کرنسی کو ڈی ویلیو ہونے سے بچانا نہیں ہوتا بلکہ نفع کمانا مقصود ہوتا ہے۔
(3)کچھ لوگ ڈالر یا ریال خریدتے ہیں پھر ان میں سے کچھ کی نیت اپنی کرنسی( روپے) کو ڈی ویلیو ہونے سے بچانے کی ہوتی ہے۔
(4) جبکہ کچھ کی نیت، ڈالر کو مہنگا ہونے پر بیچ کر نفع کمانے کی ہوتی ہے۔
مذکورہ بالا تفصیل کے پیشِ نظر کون سی صورت جائز ہے اور کون سی ناجائز ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(1) یہ صورت ہر حال میں جائز ہےکیونکہ اس صورت میں نہ احتکار(ذخیرہ اندوزی) ہے اور نہ انتظارِ غلاء ( مہنگا ہونے کا انتظار) ہے بلکہ اپنے پیسے کو ڈی ویلیو ہونے سے بچانا مقصود ہے۔
توجیہ: اس صورت میں احتکار (ذخیرہ اندوزی) نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ مفتی بہ قول کے مطابق احتکار انسانوں اور جانوروں کی خوراک میں استعمال ہونے والی چیزوں کی ذخیرہ اندوزی کو کہا جاتا ہے، ضرورت کی ہر چیز کو اپنے پاس رکھنےکو احتکار نہیں کہا جاتا۔اور اگر مفتیٰ بہ قول کو چھوڑ کر دوسرے قول (کہ ہر وہ چیز جس کے ذخیرہ کرنے سے عوام الناس کو ضرر پہنچتا ہو ، ذخیرہ اندوزی ہے)پر عمل کیا جائے تو تب بھی احتکار مطلقاً ممنوع نہیں ہے بلکہ احتکار اس وقت ممنوع ہو گا کہ جب اس سے لوگوں کو نقصان بھی ہوتا ہواور عام حالات میں ڈالر رکھنے کی وجہ سے عوام کو ضرر نہیں پہنچتا لہٰذا اس صورت میں احتکار نہیں ہے۔اور اسی طرح اس میں انتظارِ غلاء (یعنی ڈالر مہنگا ہونے پر فروخت کرنے کا انتظار) بھی نہیں ہے اس لیے کہ اس شخص کا مقصد اپنے روپوں کو ڈی ویلیو ہونے سے بچانا ہے ،مہنگا ہونے پر فروخت کرنانہیں ہے۔ لہٰذا اس صورت میں نہ احتکار ہے اور نہ انتظارِ غلاء ہے اور یہ صورت بہر حال جائز ہے۔
(2) یہ صورت عام حالات میں جائز ہےالبتہ خاص حالات (جن حالات میں لوگوں کے اپنے پاس ڈالر یا کوئی بھی غیر ملکی کرنسی محفوظ رکھنے سےان کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہو اوراس کے نتیجے میں ملکی معیشت کو نقصان پہنچتا ہو۔ ایسے حالات) میں ناجائز ہے۔
توجیہ: عام حالات میں جائز ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ڈالر یا کوئی بھی غیر ملکی کرنسی اپنے پاس رکھنا دو وجوہ سے ناجائز ہوتا ہے۔ (۱) احتکار (۲) انتظارِ غلاء یعنی مہنگا ہونے پر فروخت کرنے کی نیت۔اور یہ دونوں وجہیں یہاں نہیں پائی جارہیں، احتکار یعنی ذخیرہ اندوزی کے نہ پائے جانے کی تفصیل تو پہلے جواب کی توجیہ میں گذر چکی ہے۔
جبکہ دوسری وجہ یعنی انتظارِ غلاء نہ پائے جانے کی تفصیل یہ ہے کہ انتظارِ غلاء ہر حال میں ممنوع نہیں ہے بلکہ ان حالات میں ممنوع ہے جن میں انتظارِ غلاء سے عام لوگوں کو نقصان ہوتا ہواور چونکہ عام حالات میں ڈالر یا کوئی بھی غیر ملکی کرنسی اپنے پاس رکھنے سے نہ تو ڈالر کی قیمت میں کمی ہوتی ہے اور نہ اس کے نتیجے میں ملکی معیشت کو نقصان ہوتا ہے لہذا اس صورت میں اتنظارِ غلاء کی ممنوع صورت بھی نہیں پائی جارہی اس لیے عام حالات میں یہ صورت جائز ہے۔
اور خاص حالات میں جائز نہیں ہے اس لیے کہ اس صورت میں اگرچہ مفتیٰ بہ قول کے مطابق احتکارنہیں پایا جارہا (جس کی وجہ اوپر گذر چکی ہے) لیکن انتظارِ غلاء پایا جارہا ہے ۔
(3)یہ صورت ہر حال میں جائز ہےاس لیے کہ نہ اس میں احتکار ہے اور نہ ہی اس میں انتظارِ غلاء ہے۔اس میں احتکار اور انتظارِ غلاء نہ ہونے کی تفصیلی وجوہات پہلے جواب کی توجیہ میں گذر چکی ہیں۔
(4) یہ صورت عام حالات میں جائز ہے البتہ خاص حالات میں جائز نہیں ہے، خاص حالات سے مراد وہ حالات ہیں جن میں کسی شخص کا اپنے پاس ڈالر یا کوئی بھی غیر ملکی کرنسی رکھنا پاکستانی کرنسی کے ڈی ویلیو ہونے کا سبب بنتا ہے ، جس کے نتیجے میں ملکی معیشت کو نقصان پہنچتا ہے۔عام حالات میں جائز ہونے اور خاص حالات میں ناجائز ہونے کی تفصیل دوسرے جواب کی توجیہ میں گذرچکی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ پہلی اور تیسری صورت بہرحال جائز ہے جبکہ دوسری اور چوتھی صورت عام حالات میں جائز ہے اور خاص حالات میں جائز نہیں ہے۔
شامى (9/657) میں ہے:
(وكره احتكار قوت البشر) كتبن وعنب ولوز (والبهائم) كتبن و قت (في بلد يضر باهله)
قوله (وكره احتكار قوت البشر) …….والتقييد بقوت البشر قول ابى حنيفة ومحمد رحمهما الله وعليه الفتوى كذا في الكافي وعن ابي يوسف : كل ما اضر بالعامة حبسه فهو احتكار وعن محمد :لا احتكار في الثياب
(ولا يكون محتكرا بحبس غلة ارضه ) بلا خلاف
(قوله ولا يكون محتكرا الخ) لانه خالص حقه لم يتعلق به حق العامة الا ترى ان له ان لا يزرع فكذا له ان لا يبيع هداية . قال ط: والظاهر ان المراد انه لا ياثم اثم المحتكر وان اثم بانتظار الغلاء او القحط لنية السوء للمسلمين انتهى
فتاوى ہندیہ (3/ 213) میں ہے:
«الاحتكار مكروه وذلك أن يشتري طعاما في مصر ويمتنع من بيعه وذلك يضر بالناس كذا في الحاوي، وإن اشترى في ذلك المصر وحبسه ولا يضر بأهل المصر لا بأس به كذا في التتارخانية»
الأشباه والنظائر – ابن نجیم (ص24) میں ہے:
القاعدة الثانية: الأمور بمقاصدها
وقالوا: الأكل فوق الشبع حرام بقصد الشهوة وإن قصد به التقوي على الصوم أو مؤاكلة الضيف فمستحب وقالوا: الكافر إذا تترس بمسلم فإن رماه مسلم فإن قصد قتل المسلم حرم، وإن قصد قتل الكافر لا
امداد الفتاوٰی (3/19)میں ہے:
سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین کہ زید نے فصل پر شہر کے شہر میں گندم ہزار پانسوں روپے کے خرید کر کے بھر رکھے، کہ عند الموقع فروخت کروں گا، اس عرصہ میں ایسا موقع بھی ہوا کہ اگر فروخت کرتا تو اس کو نفع ہوتا، تاہم انتظار گرانی ہے، سو یہ احتکار ہوا یا نہیں ؟ اور اگر یہ احتکار نہیں ہے تو احتکار کی کیا تعریف ہے، اور کیا حکم اس کی نسبت ؟
الجواب: اگر اس کے روکنے سے لوگوں کو کچھ ضرر ہوا تواحتکار ہوا، ورنہ نہیں ہوا، کیونکہ احتکار کے معنی روکنا غلہ کا وقت ضرورت خلائق بنظر گرانی اور اس کی مدت میں اختلاف ہے، بعض کے نزدیک ایک ماہ، بعض کے نزدیک چالیس روز، غرض یہ کہ جب لوگوں کو ضرورت پڑنے لگے اور روکنے سے ضرر ہونے لگے احتکار ہوجاتا ہے۔ ثم المدة إذا قصرت لایکون احتکارا لعدم الضرر، وإذا طالت یکون احتکاراً مکروها لتحقق الضرر، ثم قیل:هى مقدرۃ بأربعین یوماً، وقیل: بالشهر (هدايه مختصراً، کتاب الکراهية: 12) اور احتکار پر حدیث میں بڑی سخت وعیدیں لعنت وجذام وافلاس وغیرہ کی آئی ہیں ۔عن عمر عن النبي ﷺ قال الجالب مرزوق والمحتکرملعون، عن عمر بن الخطاب قال سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم یقول من احتکرعلی المسلمین طعامهم ضربه الله بالجذام والافلاس۔ (مشکوۃ، کتاب البیوع) والله اعلم فقط۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved