- فتوی نمبر: 33-170
- تاریخ: 27 مئی 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وصیت کے احکام
استفتاء
کچھ عرصہ قبل ہماری ایک غیر شادی شده بزرگ رشتہ دار خاتون وفات پاگئیں۔ ان کے ترکہ کے بارے میں چند گزارشات درج ذیل ہیں : مرحومہ کے والدین کافی عرصہ پہلے وفات پاچکے ہیں۔ ان کا کوئی بھائی نہیں تھا۔ صرف دو بہنیں تھیں۔دونوں بہنیں پہلے ہی وفات پا چکی ہیں۔بڑی بہن کے چھے لڑکے اور دو بیٹیاں موجود ہیں۔ جبکہ دوسری بہن کے دو بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔ دیگر رشتہ داروں میں حقیقی و غیر حقیقی(علاتی) چچا وفات پاچکے ہیں۔ حقیقی چچاؤں کے بیٹے بیٹیاں بھی وفات پاچکے ہیں۔ حقیقی چچاؤں کے پوتے اور پوتیاں موجود ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
3 بیٹے + 5 بیٹیاں
1 بیٹا + 4 بیٹیاں
6 بیٹے + 2 بیٹیاں( یہ والے پوتے،پوتیاں متوفی کے حقیقی بھانجے اور بھانجیاں بھی ہیں اور انہی کو مال ہبہ کیا ہے جس کا ذکر سوال میں ہے)
سوتیلے (علاتی)چچا تین تھے ان کے بیٹے اور بیٹیاں موجود ہیں۔جن کی تفصیل یوں ہے:
بھائی: 4+4= کل 8
بہنیں:1+3+2=کل 6
مرحومہ خاتون نے والدین کی وفات کے بعد تقریباً پوری زندگی اپنی بڑی بہن کی اولاد یعنی بھانجوں کے ساتھ گزاری اور اپنا مال جو نقدرقم اور زیور کی شکل میں تھا، ان میں سے دوسرے بڑے بھانجے کے قبضے میں رکھا۔
مرحومہ اپنی زندگی کے آخری دو سالوں میں کئی بار صاحب فراش ہوئیں۔مرحومہ کو کوئی خاص مرض لاحق نہیں تھا صرف بڑھاپے کی وجہ سے کبھی کبھار بستر پر پڑ جاتیں اور پھر صحت ہوتی تو چلنے پھرنے لگتیں۔اسی طرح جولائی کے مہینے میں ایک بار غالباً نمونیہ کی وجہ سے صاحب فراش ہوئیں۔اس موقع پر مرحومہ کے تین بھانجے اور ایک بھانجی(بڑی بہن کے بچے) موجود تھے تو انہوں نے مرحومہ سے کہا کہ “آپ کا مال تو آپ کی سوتیلے چچا کے بچوں کو مل جائے گا” جس پر انہوں نے کہا کہ “انہیں کیوں ملے گا انہوں نے تو کبھی میرا خیال نہیں رکھا وہ مال تو آپ ہی کا ہے۔آپ کے درمیان ہی تقسیم ہو گا اور کسی اور کو کچھ نہیں ملے گا” بھانجوں کا خیال تھا کہ یہ ایک قسم کا ہبہ ہے اور ان کی وفات کے بعد ہی تقسیم ہو گا اور میت کے تمام اخراجات اسی مال سے پورے کیے جائیں گے۔اس کے بعد مرحومہ پھر سے صحت یاب ہو کر چلنے پھرنے لگیں اور اکتوبر کے مہینے میں مرحومہ کا انتقال ہوا۔ سوال یہ ہے کہ کیا مرحومہ کے بھانجوں بھانجیوں کی موجودگی میں مذکورہ زبانی بیان کی بنیاد پر اسے ہبہ سمجھا جا سکتا ہے جبکہ یہ ان کی وفات کے بعد تقسیم کیا گیا؟ اگر یہ ہبہ ہے تو کیا یہ بھانجوں اور بھانجیوں میں برابر تقسیم ہوگا یا بھانجوں اور بھانجیوں کے درمیان 2:1 کےتناسب سے تقسیم ہوگا؟ اگر یہ ہبہ نہیں ہے تو کیا سوتیلے چچا کے بچے اس مال کے وارث ہو سکتے ہیں، حالانکہ مرحومہ یہ نہیں چاہتی تھیں کہ یہ مال انہیں ملے کیونکہ انہوں نے کسی بھی طرح سے ان کی دیکھ بھال نہیں کی تھی؟ مفتی صاحب، آپ سے درخواست ہے کہ ہماری رہنمائی فرمائیں کہ کیا یہ تقسیم ٹھیک ہے؟ براہ مہربانی ہمارے لئے کوئی شرعی راه حل تجویز فرمائیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
ہمارے خیال میں مذکورہ صورت زندگی میں ہبہ کی نہیں بلکہ وصیت کی ہے۔ لہذا اگر دیگر ورثاء (مرحومہ کے حقیقی چچا کے وہ پوتے جو مذکورہ بھانجوں کے علاوہ ہیں) اس وصیت پر راضی ہوں تو یہ مال مرحومہ کی بڑی بہن کے بچوں میں (جنہوں نے مرحومہ کا خیال رکھا ان کے درمیان ) برابر تقسیم ہو گا۔ اور اگر وہ اس وصیت پر راضی نہ ہوں تو اس میں سے ایک ثلث/ایک تہائی مال کے آٹھ حصے کرکے ایک ایک حصہ تو مرحومہ کی بڑی بہن کی دونوں بیٹیوں کو مل جائے گا اور بقیہ سارا مال مرحومہ کے حقیقی چچا کے پوتوں (جن میں مرحومہ کی بڑی بہن کے بیٹے بھی شامل ہیں ان) کے درمیان برابر تقسیم ہو گا۔
توجیہ: ہمارے خیال میں مذکورہ صورت وصیت کی ہے۔ کیونکہ مذکورہ صورت میں مرحومہ نے جس سیاق و سباق میں یہ جملہ کہا تھا کہ”انہیں کیوں ملے گا………… وہ مال تو آپ ہی کا ہے۔آپ کے درمیان ہی تقسیم ہو گا اور کسی اور کو کچھ نہیں ملے گا” اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مرحومہ کا مقصود زندگی میں دینا نہیں تھا بلکہ اپنی وفات کے بعد دینا تھا اور یہ وصیت کی صورت ہے نہ کہ ہبہ کی اور کل مال کی وصیت ورثاء کی اجازت کے ساتھ جائز ہوتی ہے۔ اور اگر ورثاء اجازت نہ دیں تو وصیت ایک ثلث/ایک تہائی مال میں جاری ہوتی ہے۔ نیز جن لوگوں کے لیے وصیت کی ہے ان میں ورثاء(مرحومہ کے بھانجے جو چچا کے پوتے ہونے کی وجہ سے مرحومہ کے وارث بھی ہیں وہ)بھی شامل ہیں اور وارث کے حق میں کی گئی وصیت بھی دیگر ورثاء کی اجازت پر موقوف ہوتی ہے۔ لہٰذا اگر ورثاء اس وصیت پر راضی نہیں تو یہ وصیت مرحومہ کے ایک ثلث/ایک تہائی مال میں سے صرف بھانجیوں کے حق میں ان کے حصہ کے بقدر نافذ ہوگی۔ بھانجوں کے حق میں نافذ نہ ہوگی۔اور چونکہ جن لوگوں کے لیے وصیت کی گئی ہے ان کی تعداد آٹھ ہے اس لیے دونوں بھانجیوں میں سے ہر بھانجی کا حصہ ایک ثلث مال کا آٹھواں حصہ(8/1) ہوگا۔
البتہ اگر کچھ ورثاء اس وصیت پر راضی ہوں اور کچھ راضی نہ ہوں یا کچھ ورثاء نابالغ ہوں تو جتنے ورثاء راضی نہیں یا جو نابالغ ہیں، ان کا حصہ نکالنے کے بعد بقیہ مال حسب وصیت بھانجوں اور بھانجیوں کے درمیان تقسیم ہو گا۔ (اگر ایسی صورت پیش آجائے تو تقسیم کی صورت دوبارہ دریافت کرلی جائے)
تنویرالابصار(10/334) میں ہے:
كتاب الوصايا: هي تمليك مضاف إلي ما بعد الموت.
ہندیہ (6/109) میں ہے :
ثم تصح الوصية لأجنبي من غير إجازة الورثة كذافي التبيین ولا تجوز بمازاد على الثلث إلا أن یجيزه الورثة بعد موته وهم كبار ……..ولا تجوز الوصية للوارث عندنا إلا أن يجيزها الورثة ولو أوصى لوارثه ولأجنبى صح فى حصة الأجنبى ويتوقف فى حصة الوارث على اجازة الورثة إن أجازوا جاز وإن لم يجيزوا بطل
ہدایہ(4/649) میں ہے:
من أوصى لأجنبي ولوارثه فللأجنبي نصف الوصية وتبطل وصية الوارث.
مسائل بہشتی زیور (2/493) میں ہے:
تہائی میں سے تناسب کے ساتھ وصیت کو پورا کیا جائے مثلاً تہائی مال ایک ہزار روپے ہے۔ میت نے دو آدمیوں کو دو، دو ہزار روپے دینے کی وصیت کی تو ہر ایک کو پانچ پانچ سو دیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved