- فتوی نمبر: 33-253
- تاریخ: 28 جون 2025
- عنوانات: مالی معاملات > شرکت کا بیان > شرکت عنان
استفتاء
ہماری کمپنی میڈیکل کے شعبے سے متعلق مشینوں کا کاروبار کرتی ہے۔کمپنی کے پاس مختلف بین الاقوامی کمپنیوں کی ڈیلر شپ ہے۔کمپنی مختلف حکومتی ٹینڈرز میں شرکت بھی کرتی ہے۔ کسی ٹینڈر میں شرکت کرنے کے لیے طریقہ کار یہ ہے کہ پہلے ایک متعین رقم (آرڈر کی کل مالیت کا 1یا 2 فیصد) بطور سیکیورٹی(Bid Security or Earnest Money) کے حکومتی ادارے کو جمع کروائی جاتی ہے۔اس رقم کا بینک کے ذریعے متعلقہ ادارے کے نام پے آرڈریا سی ڈی آر وغیرہ بنوایا جاتا ہے۔ اس کے بعد تقریباً دو ماہ میں آرڈر ملنے یا نہ ملنے کا فیصلہ ہوتا ہے۔ اگر آرڈر نہ ملے تو یہ رقم بعینہ واپس مل جاتی ہے۔ اگر آرڈر مل جائے تو جتنی مالیت کا آرڈر ملا ہے اس کا ۵ فیصد پرفارمنس بانڈ کے طور پر جمع کروانے پر سیکیورٹی کی یہ رقم واپس مل جاتی ہے۔پرفارمنس بانڈ کا مقصد سپلائی کی جانے والی چیز کی صلاحیت کی سیکیورٹی ہے۔اس کی مدت زیادہ سے زیادہ ۵ سال ہوتی ہے۔ ۵ سال تک اگر سپلائی کی ہوئی چیز مثلاً مشین درست کام کرتی رہے تو یہ رقم بھی مکمل واپس مل جاتی ہے۔
سپلائی کیا جانے والا مال بعض دفعہ تو سٹاک میں موجود ہوتا ہے ۔ بعض دفعہ کچھ سامان موجود ہوتا ہے اور کچھ امپورٹ کیا جاتا ہے۔ بعض دفعہ مکمل سامان امپورٹ کیا جاتا ہے۔ ان تمام صورتوں میں پہلے ہماری کمپنی خود مذکورہ سامان خریدتی ہے اور قبضہ کر کے چیک کر کے پھر حکومتی ادارے کوسپلائی کرتی ہے جسے اصطلاح میں ایف او آر (یعنی سامان متعلقہ ادارے میں پہنچانا) کی بنیاد پر مال سپلائی کرنا کہا جاتا ہے۔
بعض دفعہ حکومت ٹینڈر اس طرح کرتی ہے کہ آپ سیکیورٹی ادا کر کے ٹینڈر میں شرکت کریں ۔ ریٹ دیں۔ اگر آپ کوآرڈر مل گیا تو حکومتی ادارہ بیرون ملک میں موجود کمپنی سے بذات خود سامان منگوائے گا۔ اور اس مقصد کے لیے ادارہ متعلقہ بین الاقوامی ادارے کے نام خود ایل سی کھلوائے گا۔مال کو خود امپورٹ کرے گا اور کمپنی کو بذات خود ادائیگی کرے گا۔ اس اقدام سے مقصد ٹیکس کی چھوٹ سے فائدہ اٹھانا ہے۔اس طرح ٹینڈر کرنے کو سی اینڈ ایف وغیرہ کی بنیاد پر ٹینڈر کرنا کہتے ہیں۔اس دوسری قسم میں ہماری کمپنی (ڈیلر) بیرون ملکی کمپنی کو کوئی ادائیگی نہیں کرتی اور نہ ہی ہم حکومت کو کوئی ادائیگی کرتے ہیں، بلکہ حکومت براہ راست بیرون ملکی کمپنی کو ادائیگی کرتی ہے۔ آرڈر ملنے کے بعد ہمارا سرمایہ مندرجہ ذیل جگہوں میں استعمال ہوتا ہے:
1۔۔ بیرون ملک سے سامان منگوانے کا کرایہ ( یہ کرایہ ہم فی الوقت ادا نہیں کرتے بلکہ بیرون ملکی کمپنی ہمارے کمیشن میں سے یہ کرایہ کاٹ لیتی ہے )
2۔ کسٹم سے مال کو کلئیر کروانے کا خرچ۔
3- بندر گاہ یا ہوائی اڈے سے حکومتی ادارے تک پہنچانے کا خرچ۔
اس کے علاوہ مال پاکستان پہنچنے پر اسے چیک کرنا، ادارے میں انسٹال کرنا ( لگا کر ، چلا کر دینا)، ٹریننگ دینا اور وارنٹی کو کور کرنا ہماری ذمہ داریوں میں شامل ہے یعنی اصلا ذمہ داری ہماری ہی ہوتی ہے لیکن مال حکومت براہ راست منگواتی ہے اور پیمنٹ بھی خود کرتی ہے ۔ ایسے ٹینڈرز میں ہماری کمائی اس طرح ہوتی ہے کہ گورنمنٹ کے ٹینڈر میں ریٹ ہم دیتے ہیں اور بیرون ملکی کمپنی، جس کے ہم پاکستان میں ڈیلر ہیں، اس سے ہمارا ایک ریٹ ( قیمت خرید) طے ہوتا ہے۔ اس ریٹ ( قیمت خرید) اور ٹینڈر میں دیئے گئے ریٹ میں فرق ہماری کمائی شمار ہوتی ہے۔ البتہ اس میں سے بیرون ملکی کمپنی بیرون ملک سے مال بھیجنے کا کرایہ کاٹ لیتی ہے اور باقی رقم ہمیں بھیج دیتی ہے۔
نوٹ : مال ہمیں باہر سے ادھار بھی مل جاتا ہے اس لیے اس کے لیے سرمایہ کہ زیادہ ضرورت نہیں پڑتی ۔
اب سوال یہ ہے کہ:
1۔ ہم بعض دفعہ کسی ٹینڈر میں شرکت کے لیے سیکیورٹی کی مد میں جمع کروانے کے لیے کسی سے سرمایہ لیتے ہیں جس کی بنیاد پر ہماری کمپنی ٹینڈر میں شرکت کرتی ہے۔ آرڈر نہ ملے تو یہ رقم بعینہ بغیر کسی نفع کے سرمایہ کار کو واپس کر دی جاتی ہے اور آرڈر مل جائے تو اسے اس آرڈر پر ہونے والے نفع میں فیصد کے حساب سے شریک کر لیتے ہیں جو پہلے طے ہوجاتی ہے ، کیا یہ درست ہے؟
2۔ بعض دفعہ کسی سرمایہ کار سے یہ طے ہوتا ہے کہ آپ شرکت کے لیے سیکیورٹی بھی ادا کریں اور آرڈر ملنے پر ۵ فیصد پرفارمنس بانڈ کی رقم بھی ادا کریں ۔ پرفارمنس بانڈ بنواتے ہوئے پہلے ادا شدہ سیکیورٹی کی رقم واپس مل جاتی ہے۔ ایسے سرمایہ کار کے ساتھ بھی یہ طے کرتے ہیں کہ اگر آرڈر نہ ملا تو بغیر کسی نفع کے آپ کی سیکیورٹی کی رقم واپس مل جائے گی اور اگر آرڈر مل گیا تو پہلی صورت کے مقابلے میں زائد نفع کے تناسب کے ساتھ ہم سرمایہ کار کو نفع میں شریک کر لیتے ہیں۔ واضح رہے کہ نفع کا تناسب شروع ہی سے طے کیا جاتا ہے۔ پرفارمنس بانڈ کی رقم چونکہ ہماری کمپنی کو ۵ سال بعد واپس ملتی ہے اس لیے ادارے سے رقم وصول ہونے پر ہم ۵ فیصد ادا کی ہوئی پرفارمنس بانڈ کی رقم سرمایہ کار کو واپس کر دیتے ہیں۔ گویا کہ سرمایہ کار کو اصل رقم اور نفع ۳ سے ۴ ماہ میں واپس مل جاتے ہیں۔ کیا یہ درست ہے؟ اگر یہ صورتیں درست نہیں تو درست متبادل صورت کیا ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1،2) مذکورہ دونوں صورتیں یعنی دوسری پارٹی کی طرف سے صرف سیکورٹی کے لیے یا سکیورٹی اورپرفارمنس بانڈ کے لیے پیسے لے کر انہیں نفع میں شریک کرنا جائز نہیں ۔
توجیہ : شرکت کے صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ دو بندے پیسے ملا کر ان سے کاروبار یعنی خرید وفروخت وغیرہ کریں اور نفع آپس میں طے شدہ تناسب سے تقسیم ہو جبکہ مذکورہ صورت ایسی نہیں ، کیونکہ مذکورہ صورت میں بعض دفعہ تو سامان پہلے ہی کمپنی کے پاس موجود ہوتا ہے اسے صرف سیکیورٹی کی مد میں رقم درکار ہوتی ہے اور اگر مال نہ ہو تو انہیں ادھار بھی مل جاتا ہے نیز اگر پیسے دے کر بھی مال خریدیں تو کمپنی کی اصل غرض اس سامان کی خریدو فروخت میں کسی کے سرمایہ کو شامل کرنا نہیں ہوتا بلکہ شروع سے ہی یہ طے ہوتا ہے کہ ان کا مال سیکورٹی یا پرفامنس بانڈ میں استعمال ہو گا اور وہ بھی کمپنی کو وقتی طور پر چاہیے ہوتا ہے اس لیے کمپنی کی خود صراحت کے مطابق انہیں چاہے وہ رقم 5 سال بعد ملے آگے انویسٹر کو 3 سے 4 ماہ میں فارغ کر دیتے ہیں ۔
اس کی متبادل صحیح صورت یہی ہے کہ آپ اپنا اور ان کا سرمایہ باقاعدہ طے کر کے جمع کریں اور پھر انہیں ملا کر ان سے کاروبار کریں پھر جو نفع ہو وہ آپس میں فیصد کے لحاظ سے تقسیم کریں پھر چاہے اس کام کے ضمن میں پیسے سیکورٹی وغیرہ کے لیے بھی جمع کروانے پڑیں۔
بدائع الصنائع (6/56) میں ہے:
(أما) الأول: وهو الشركة بالأموال: فهو أن يشترك اثنان في رأس مال، فيقولان اشتركنا فيه، على أن نشتري ونبيع معا، أو شتى، أو أطلقا على أن ما رزق الله عز وجل من ربح، فهو بيننا على شرط كذا، أو يقول أحدهما: ذلك، ويقول الآخر: نعم.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved