• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

غصے میں تین طلاقیں دینےکا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ابوبکر صدیق بن جمال احمد مقیم حال ملیشیا اپنی بیوی مسماۃ سنبلہ خاتون بنت فضل احمد مقیم حال ملیشیا کے ساتھ ایک دن اپنے آپریشن کے لیے ہسپتال گیا، اس کے بعد میاں بیوی دونوں ایک گھر میں مہمان ہوئے، اس گھر میں بیوی زوج سے بات کرتے ہوئے حد سے تجاوز کرنے لگی، بیوی کی باتوں پر موصوف زوج کو بہت غصہ آگیا، اس وقت موصوفہ سنبلہ خاتون  زوج سے طلاق کا مطالبہ کرنے لگی کہ تم مجھے طلاق دے دو، اسی سبب بندہ موصوف یعنی زوج کی زبان سے بھرپور غصے کی حالت میں بے ساختہ یہ الفاظ نکل گئے کہ ’’تجھے تین طلاق ہے‘‘ بعدہ بندہ جب ہوش میں آیا تو بہت نادم و شرمندہ ہوا۔

میں مذکورہ تمام باتوں کا بالحلف اقرار کرتا ہوں، میں ان پڑھ آدمی ہوں اور طلاق کے شرعی احکام سے ناواقف ہوں، شریعت مطہرہ میں عدم وقوع طلاق   کی کوئی صورت ہو تو براہ کرم بندہ کی رہنمائی فرمائیں۔

وضاحت مطلوب ہے کہ:

غصے کی کیفیت کیا تھی؟ کوئی خلاف عادت کام کیا تھا؟

جواب وضاحت:

غصے میں طلاق دیتے وقت مجھے معلوم تھا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں اور کیا کر رہا ہوں، نیزخلاف عادت کوئی کام نہیں کیا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگرچہ شوہر نے غصے کی حالت میں طلاق دی ہے لیکن غصے کی نوعیت ایسی نہیں تھی کہ اسے معلوم ہی نہ ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا کر رہا ہے اور نہ ہی غصے میں اس سے خلاف عادت کوئی قول یا فعل صادر ہوا ہے، غصے کی ایسی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے لہذا مذکورہ صورت میں تین طلاقیں واقع ہو گئی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے، اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔

فتاوی شامی (4/439) میں ہے:

قلت: وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه. والثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله.الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، والأدلة تدل على عدم نفوذ أقواله……………فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته، وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته: فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن إدراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل.

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠] .

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved