• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

قبرستان کےلیے وقف زمین میں جنازگاہ بنایا

  • فتوی نمبر: 13-129
  • تاریخ: 01 فروری 2019

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک علاقہ میں حکومت وقت نے زمینداروں سے ان کی کچھ زمین بلامعاوضہ لے کر قبرستان کے نام پر الاٹ کی ہے جو تقریباڈھائی ایکڑ کے قریب ہے ۔ایک بڑے زمیندار نے اپنی زمین میں سے کچھ زیادہ حصہ دیا ہے ۔اب اہلیان علاقہ کی خواہش ہے کہ اس زمین میں سے کچھ حصہ ’’جنازہ گاہ‘‘کے طور پر تعمیر کیا جائے ۔کیا ان کا یہ عمل از روئے شریعت درست ہو گا؟یاد رہے کہ

۱۔ یہ حصہ قبر ستان کے الگ کونے میں ہے اور قبروں کے یہاں تک پہنچنے میں کئی سال لگ جائیں گے ۔

۲۔ جنازہ گاہ کی یہ تعمیر عارضی ہو گی یعنی کل کو اگر یہاں قبروں کے لیے جگہ ضرورت پڑی تو یہ جگہ استعمال میں لائی جائی گی ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں عارضی طور پر قبرستان کے لیے مختص زمین میں جنازگاہ بنانا جائز ہے البتہ مردوں کو دفن کرنے کے لیے اگر اس جگہ کی ضرورت پڑی تو جنازگاہ کو ختم کرنا ہوگا۔

في الهندية(416/2)

ارض لاهل قرية جعلوها مقبرة واقبروا فيها ثم ان واحدا من اهل القرية بني فيها بناء لوضع اللبن وآلات القبر واجلس فيها من يحفظ المتاع بغير رضاء اهل القرية او رضابعضهم بذلک قالوا :ان کان في المقبرة سعة بحيث لايحتاج الي ذلک المکان فلابأس به وبعد مابني لو احتاجوا الي ذلک المکان رفع البناء حتي يقبه فيه

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved