- فتوی نمبر: 16-86
- تاریخ: 15 مئی 2024
- عنوانات: حدیثی فتاوی جات > متفرقات حدیث
استفتاء
في البخاري والمسلم
عن ابن عمررضي الله عنهماقال صليت مع رسول الله ﷺرکعتين قبل الظهر ورکعتين بعدها ورکعتين بعد المغرب في بيته ورکعتين بعد العشاءفي بيته قال وحدثتني حفصة ان رسول اللهﷺ کان يصلي رکعتين خفيفتين حين يطلع الفجر
ترجمہ:حضرت اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دورکعتیں پڑھی ہیں،ظہر سے پہلے اوردورکعتیں ظہر کےبعد ،اوردورکعتیں مغرب کےبعد آپ ﷺکےگھر میں ،اور دو رکعتیں عشاء کےبعد آپﷺ کےگھر میں اورمجھ سے بیان کیا میری بہن ام المؤمنین حفصہ ؓنے کہ رسول اللہ ﷺدو ہلکی رکعتیں پڑھتے تھے صبح صادق ہوجانے پر۔
تشریح: اس حدیث میں ظہر سے پہلے دو رکعت پڑھنے کاذکر ہے اس سلسلہ کی تمام حدیثوں کو سامنے رکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺظہر سے پہلے اکثر وبیشتر چار رکعت پڑھتے تھے اورکبھی کبھی صرف دو بھی پڑھتےتھے بہرحال دونوں ہی عمل آپﷺ سے ثابت ہیں اورجس پر بھی عمل کیاجائے سنت ادا ہوجائے گی ۔اس ناچیز نے بعض اہل علم کو دیکھا ہے کہ وہ ظہر سے پہلے اکثروبیشتر 4رکعت سنت پڑھتے ہیں لیکن جب دیکھتے ہیں کہ جماعت کاوقت قریب ہے تو صرف 2رکعت پر اکتفا کرتے ہیں۔مندرجہ بالا حدیثوں میں جن 12رکعت یا 10رکعت سنتوں کاذکرہے چونکہ رسول اللہ ﷺ عملاان کا زیادہ اہتمام فرماتے تھے اوران میں سے بعض کے متعلق آپﷺنے خاص تاکیدبھی فرمائی ہے اس لیے ان کو سنت مؤکدہ سمجھا گیا ہے۔ان میں سب سے زیادہ تاکید آپ نے فجر کی سنتوں کےبارے میں فرمائی ہے۔
مفتی صاحب!مولانا منظور نعمانی صاحبؒ نے یہ بات جو اوپر ذکرکی ہےکہ ظہر کی دوسنتیں بھی آپ ﷺ نےپڑھی ہیں ،کیاجب وقت کم ہوتو دورکعت سنت فرض سے پہلے پڑھ سکتے ہیں ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
احناف کی تحقیق میں ظہر سے پہلے چار رکعت سنت مؤکدہ ہیں لہذا دورکعت سنت پڑھنےسے چاررکعت کی ادائیگی نہ ہوگی۔مذکورہ حدیث میں جو دو رکعت پڑھنے کاتذکرہ ہے اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ ﷺ نے ظہر سے پہلے صرف دورکعت پڑھنے پر اکتفاء کیاہواورچار رکعات نہ پڑھی ہوں کیونکہ عدم ذکرسے عدم لازم نہیں آتا ۔ہاں اگر حدیث میں یہ ذکرہوتا کہ بعض اوقات آپ ﷺ نے ظہر سے پہلے صرف دورکعات پڑھی ہیں اس کے بعد چار رکعات نہیں پڑھیں تو مولانا نعمانیؒ کی بات درست ہوسکتی تھی۔حالانکہ حضرت عائشہ ؓ کی حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ ظہر سے پہلے چار رکعات پڑھنا نہ چھوڑتے تھے۔
في البخاري:1/157
عن عائشة رضي الله عنهاان النبيﷺ کان لايدع اربعا قبل الظهر ورکعتين قبل الغداة
ترجمہ:حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺظہر سے پہلی کی چار رکعت (سنت)نہیں چھوڑتے تھے
في فتح الملهم :4/113
قوله(قبل الظهر سجدتين)ال رکعتين قال الشيخ بدرالدين العيني فيه ان السنة قبل الظهر رکعتان لکن روي البخاري وابوداؤدوالنسائي من رواية محمدبن المنتشر عن عائشة ان النبي ﷺکان لايدع اربعا قبل الظهر
وروي مسلم وابوداؤد والنسائي والترمذي من رواية خالد الخذاء عن عبد الله بن شقيق قال سألت عائشة عن صلاة رسول اللهﷺعن تطوعه فقالت کان يصلي في بيتي قبل الظهر اربعا
وروي الترمذي من رواية عاصم بن حمزة عن علي رضي الله عنهم قال کان النبي ﷺيصلي قبل الظهر اربعا وبعدها رکعتين وقال الترمذي حديث علي حديث حسن وقال ايضا والعمل علي هذا عند اکثر اهل العلم من اصحاب النبي ﷺومن بعده يختارون ان يصلي الرجل قبل الظهر اربع رکعات
في الدر المختار مع ردالمحتار:2/451
وسن مؤکدا (اربع قبل الظهرو)اربع قبل (الجمعةو)اربع(بعدها بتسليمة ) فلو بتسليمتين لم تنب عن السنة
في بدائع الصنائع:1/637
وعن عبيدة السلماني انه قال (مااجتمع اصحاب رسول الله ﷺعلي شيئ کاجتماعهم علي محافظة الاربع قبل الظهر….)ثم هذه الاربع بتسليمة واحدة عندنا
ترجمہ:صاحب بدائع)نے ظہر کی چار رکعت پر صحابہ کااجماع نقل کیا ہے باقی رہی حضرت ابن عمرؓ کی روایت تو اس کے بارے میں امام محمدؒ فرماتے ہیں کہ اس سے نفل مراد ہیں
في مؤطاامام محمد:162
عن ابن عمر رضي الله عنهما ان رسول الله ﷺ يصلي قبل الظهر…..قال محمد هذا تطوع وهوحسن
في فتح القدير:1/386
وقال ابن الهمام :ثم کان يصلي رکعتين تحية المسجد فکان ابن عمررضي الله عنهمايراهما
© Copyright 2024, All Rights Reserved