- فتوی نمبر: 9-196
- تاریخ: 21 اکتوبر 2016
- عنوانات: خاندانی معاملات
استفتاء
میرے والد صاحب مندرجہ ذیل قسم کے باتیں کہتے ہیں:
1۔ کینیڈا کی شہریت حاصل کرنے کے لیے انہوں نے وہاں کے امیگریشن ڈپارٹمنٹ میں یہ بات کہی کہ وہ عیسائی ہو چکے ہیں۔ لہذا انہیں کینیڈا کی شہریت دی جائے۔
ہمیں انہوں نے یہ دلیل دی کہ ایسا انہوں نے جھوٹ بولا تھا، صرف شہریت حاصل کرنے کے لیے اور دل کا حال تو صرف اللہ کو ہی پتا ہے۔ دلیل کے طور پر وہ حدیث کہ ’’اعمال کا دار و مدار نیت پر ہے‘‘ بیان کرتے ہیں۔
2۔ آگ میں جلانے کی صلاحیت ہے اور وہ ہر چیز کو جلا دیتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ کہ ان کو آگ میں ڈالا گیا اور وہ جلے نہیں، ایک فرضی کہانی ہے۔ (نعوذ باللہ)
3۔ شیطان کا کوئی وجود نہیں ہے، یہ ایسے ہی بنائی ہوئی بات ہے۔ (نعوذ باللہ)
4۔ دنیا کا جو نظام چل رہا ہے جیسا کہ بارشیں ہونا، ہوا چلنا، کھیتوں کا اگنا، یہ سب کچھ اللہ کے بنائے ہوئے نظام کے تحت چل رہا ہے، اب اس میں اللہ کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ یعنی کہ اب جو بارش ہوتی ہے یا کھیتی اگتی ہے، اس میں اللہ کا کوئی دخل نہیں، بلکہ یہ اس کے بنائے ہوئے نظام کے تحت ہوتا ہے۔
5۔ جب پتہ ہلتا ہے تو ہوا سے ہلتا ہے، اس میں اللہ کہاں ہے جو اسے ہلا رہا ہے۔ یہ ایک سسٹم ہے کہ جب ہوا آئے گی تو پتہ ہلے گا، جبکہ یہ مولوی کہتے ہیں پتہ بھی اللہ کے حکم سے ہلتا ہے۔
6۔ چالیس سال کی عمر تک نبی اکرم ﷺ کو یہ معلوم نہ تھا کہ وہ نبی ہیں پھر وہ یہ بات کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اگر میں نہ ہوتا تو یہ دنیا نہ ہوتی۔ (نعوذ باللہ)
7۔ جب اذان ہونے لگتی ہے تو کہتے ہیں ایسا لگ رہا ہے کہ اللہ آسمان سے گر رہا ہے۔ اور یہ مولوی لوگ اللہ کو پکر رہے ہیں۔ (نعوذ باللہ)
8۔ جب دین کی سمجھ نہیں تو نمازیں کیوں پڑھنی ہیں۔ (نعوذ باللہ)
9۔ اگر اللہ کی مرضی ہوتی کہ اسلام ہی صحیح دین ہوتا تو یہ دوسرے ادیان نہ ہوتے۔ (نعوذ باللہ)
10۔ ایک تقریب میں انہوں نے کسی صاحب سے مرزا قادیانی کے بارے میں بولا کہ دنیا میں جتنے بھی نبی آئے ہیں لوگوں نے انہیں جھٹلایا ہی ہے۔
11۔ باجماعت نماز پڑھنے کے بارے میں کہتے کہ اللہ ان کو ڈھونڈتا پھر رہا ہے، گھر میں نماز نہیں پڑھ سکتے۔ (نعوذ باللہ)
ان کے حالات زندگی کچھ ایسے ہیں:
1۔ نماز بالکل نہیں پڑھتے، حتیٰ کہ جمعہ کی بھی نہیں۔
2۔ مذہبی لوگوں سے کافی بغض رکھتے ہیں، تقریباً ہر محفل میں ان کو برا بھلا کہتے ہیں۔
3۔ گھریلوں حالات کچھ اس طرح ہیں کہ والدہ کو یہ طلاق دے چکے ہیں، بچوں میں صرف بڑی بہن اور میں ان سے رابطہ رکھے ہوئے ہیں، چھوٹا بھائی کبھی کبھار رابطہ کرتا ہے اور چھوٹی بہن بالکل رابطہ نہیں رکھتی۔ والدہ، چھوٹا بھائی، اور چھوٹی بہن کینیڈا میں ہی ان سے الگ صوبہ میں رہتے ہیں۔
برائے مہربانی قرآن و حدیث کے دلائل کی روشنی میں مندرجہ ذیل باتوں کے جوابات دیجیے:
1۔ ان کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟
2۔ ان کے ساتھ رہنا اور ان کی خدمت کرنا صحیح ہے؟
3۔ والد صاحب کا مزاج بہت سخت ہے اور میری بیوی، بچوں کے ساتھ بھی سخت رویہ ہے۔ البتہ بچوں کو پیار بھی خوب کرتے ہیں، لیکن میری اہلیہ کے ساتھ رویہ تضحیک آمیز ہے۔ ان کے رہنے کی ترتیب یہ ہے کہ سات مہینے کینیڈا میں رہتے ہیں اور پانچ ماہ کراچی میں ہمارے پاس۔
4۔ اگر ہم رہائش الگ اختیار کرتے ہیں تو والد صاحب اس سے غصہ و غمگین ہوتے ہیں۔ الگ رہائش اختیار کرنے میں ہم ان کی نافرمانی تو نہیں کر رہے۔ فی الحال ہم والد صاحب کے گھر میں ہی رہتے ہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
ان میں کئی کفریہ باتیں ہیں۔ ان کے ساتھ رہائش رکھ سکتے ہیں۔ ان کی ضروریات کا خیال رکھیں اور ان کی سختیوں کو برداشت کریں اور ان کے حق میں اللہ سے دعا کرتے رہیں۔ آپ کی اہلیہ بھی اپنے دل کو سمجھا لیں کہ ان کے سسر نے تو ایسے ہی تضحیک کا نشانہ بنانا ہے اس لیے وہ جو چاہے کہیں ان کو کیا فرق پڑے گا۔ اس سے انشاء اللہ برا محسوس ہونے میں کمی ہو گی۔
اپنے اور اپنے والد کے حق میں دعا کثرت سے کیجیے مثلاً
1۔ يا حي يا قيوم برحمتك نستغيث.
- اللهم أصلح لنا شأننا كله.
- يا مصرف القلوب، صرف قلوبنا إلى طاعتك.
ان کے علاوہ عربی میں یا اردو میں مزید دعائیں ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
وضاحت مطلوب ہے:
1۔ کہ وہ عالم صاحب کون ہیں؟
2۔ آپ کاان سے کیا تعلق ہے؟
3۔ آپ کا اپنا دینی حوالے سے کیا تعارف ہے؟
4۔ آپ کو اس میں کیا خرابی محسوس ہو رہی ہے؟
5۔ آپ کسی دوسرے شخص کے عمل سے متعلق کیوں پوچھنا چاہتے ہیں؟ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved