- رابطہ: 3082-411-300 (92)+
- ای میل: ifta4u@yahoo.com
- فتوی نمبر: 5-181
- تاریخ: جولائی 17, 2024
- عنوانات: خاندانی معاملات, طلاق و عدت
استفتاء
لڑکے نے 18 جنوری 2012 کو دو دفعہ غصہ میں فو ن پر کہا کہ ” ابارشن ( اسقاط حمل ) کر وادو ور نہ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں”۔ یہ جملہ دوران حمل استعمال کیا گیا۔ وجۂ غصہ یہ تھی کہ اس بچے کو ضائع کروا دو میں نہیں مانی کہ میں اللہ کے خوف کی وجہ سے یہ کام نہیں کر سکتی۔ اس دورن میں سسرال کے گھر میں قیام پذیر رہی ۔ جب لڑکے کے والدین کراچی گئے تو لڑکا میرے کمرے یعنی اپنے گھر میرے ساتھ رہا اور اکٹھے سوتے رہے دو دن تک۔ مگر والدین کے آنے کے بعد پھر ملاقات نہیں ہوئی اور اپریل کے مہینے میں مجھے سسرال والوں نے گھر سے واپس اپنے ماں باپ کے گھر بھیج دیا۔ 15 ۔08 ۔ 2012ء کو بچی پیدا ہوئی۔ سسرال والوں کی طرف سے مصالحت کے لیے تیار ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں سائل کا یہ کہنا کہ "ابورشن ( اسقاط ) کروا دو ورنہ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں ” یہ طلاق کی دھمکی ہے۔ اور طلاق کی دھمکی سے طلاق واقع نہیں ہوتی ۔ اس لیے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved