• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ملازمت کےمتعلق سوال

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

درج ذیل مسئلہ میں بندہ کی رہنمائی فرما دیں۔

مجھے سال ٢٠١٩ کے اخیر میں ایک انٹرویو بورڈ کے            ٹیکنیکل       ممبر کی حیثیت سے اپنے ادارے کے لئے ٹیکنیکل افراد کی سلیکشن کے لئے منتخب کیا گیا۔  میں اس سے پہلے بھی ایک  دفعہ ایسے بورڈ کا ممبر بن چکا تھا۔اس وقت سارا کام انتہائی شفاف طریقے سے ہوا تھا اور کسی سفارش وغیرہ کی پروا نہیں کی گئی تھی۔ اس دفعہ ایک امیدوار کی بہت تگڑی سفارش تھی جس کا علم اس وقت ہوا جب اس کے ٹیکنیکل انٹرویو میں ١٠ میں سے ٣.٥ نمبر کو بورڈ کے چیئرمین نے ٧ نمبر تک بڑھا دیا۔ بورڈ نے مشترکہ طور پر اس سے پہلے سب سے بہتر امیدوار کو ١٠ میں سے ٧.٥ نمبر دیے تھے اور یہ سفارشی امیدوار کسی طور بھی اتنے نمبر کا حقدار نہیں تھا۔ بورڈ کے چیئرمین نے خود اس کے نمبر ٧ تک بڑھائے اور مجھے اس پر دستخط کرنے کو کہا۔ میرے استفسار / مزاحمت پر انہوں نے اس کے سفارشی کے طور پر ہمارے ادارے کے منیجنگ ڈائریکٹر اور ہیڈ آف ہیومن  ریسورس کا نام لیا۔ واضح رہے کے اس بورڈ کے تمام ممبران مجھ سے سینئر اور میرے ہی ادارے میں ملازم تھے- میں نے اور ایک اور ساتھی (جو کہ سلیکشن بورڈ ممبر نہیں تھا ) نے کافی دیر تک اس پر مزاحمت کی اور ایسے ناقابل اور نالائق شخص کی ادارے میں سلیکشن کے نتائج اور نقصانات سے آگاہ کیا۔ بورڈ کے تمام ممبران بشمول چیئرمین  نے ہماری رائے سے اتفاق کرتے ہو            ۓ اسے اپنی مجبوری بتایا اور بتایا کہ اس بندے کے لئے مسلسل ہیڈ آف ہیومن ریسورس  کی کالیں آ رہی ہیں اور یہ کہا کہ یہ امیدوار غالباً ادارے کے منیجنگ ڈائریکٹر کا سفارشی ہے جس وجہ سے اتنی کالیں آ رہی ہیں۔ واضح رہے کے منیجنگ ڈائریکٹر ادارے کا سب سے سینئر ملازم ہوتا ہے اور تمام معاملات میں حتمی رائے تصور کیا جاتا ہے۔ منیجنگ ڈائریکٹر قانون کے مطابق ضابطے کا پابند ہوتا ہے اور کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو جواب دہ ہوتا ہے۔سلیکشن بورڈ کے تمام ممبران نے اپنی مجبوری کا اظہار کیا۔ اسی دوران     مجھے    یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ سفارشی امیدوار اس انٹرویو سے پہلے ہونے والے تحریری امتحان میں بھی ناکام ہوا تھا اور اس کو غلط طریقے سے اضافی نمبر دے کر پاس کیا گیا تھا           جس  میں بورڈ کے باقی ممبران ملوث تھے        ۔     یہ بھی پتہ چلا کہ   اسی طرح کا معاملہ ایک اور امیدوار کے ساتھ بھی کیا گیا تھا کہ اسے بھی تحریری امتحان میں غلط طریقے سے پاس کروایا گیا تھا لیکن انٹرویو میں بری طرح ناکام ہونے پر کسی بورڈ ممبر نے اس کے لیے سفارش نہیں کی (غالباً اس کی سفارش اتنی تگڑی نہیں تھی اور مزید یہ کہ اس کی انٹرویو کی کارکردگی بہت   ہیھی پتہ چلا کہو خراب تھی)۔بہرحال تمام بورڈ ممبران نے بظاہر بڑے متامل اور شرمندہ انداز میں اس پہلے تگڑی سفارش کے حامل امیدوار کو ٧ نمبر دینے کی سفارش کی۔میں نے پھر تامل سے کام لیا اور کہا کہ میں اتنے زیادہ نمبر نہیں دے سکتا۔اس پر بورڈ ممبران نے اس کے نمبر کم کر کے ٥.٥ کر دیے ۔یہ نمبر بھی اس طرح  کم کیے  گئے کہ وہ امیدوار منتخب ہوجائے۔مطلب یہ کہ اگر ٦ امیدوار منتخب کرنے ہیں تو اس کے نمبر اتنے ہوں کہ اس کا انتخاب بھی ہو جائے۔ یہ اندازہ    بھی میں  نے باقی بورڈ ممبران کی گفتگو سے لگایا کیوں کہ یہ انٹرویو ایک سے زیادہ جگہوں پر ہوتے ہیں اور میرے پاس تمام امیدواران                     کا ریکارڈ موجود نہیں تھا کیوں کہ میں صرف اس مخصوص جگہ کے لئے سلیکشن بورڈ کا ممبر تھا جب کہ باقی ممبران تمام جگہوں پر انٹرویو کے لئے موجود تھے۔آخر کار میں نے ٥.٥ نمبر والے فارم پر دستخط کر دیے ۔مجھے اپنی  اس غلطی کا  اندازہ تو تھالیکن   اس وقت میں یہ اندازہ نہیں لگا سکا کہ کوئ اور امیدوار جس کے نمبر ٣.٥ سے ٥.٥ کے درمیان ہوں گے، اس کی حق تلفی ہو گی۔مزید بعد میں مجھے یہ بھی احساس ہوا کہ مجھے مزید سخت انداز اپنانا چاہیے تھا اور انکار کر دینا چاہیے تھا۔ہو سکتا ہے کہ اس کے نتیجے مجھے وہ کسی طرح اس معاملے سے نکال لیتے اور مجھے ایسے غلط دستخط نہ کرنے پڑتے،اگرچہ بظاہر میرے دستخط کے بغیر سلیکشن ممکن نہیں تھی۔اگر میرے سخت انداز اپنانے اور انکار کرنے کے بعد کوئی صورت ایسی بنتی جس میں میں نوکری کو خطرہ کی وجہ سے مجبور ہو جاتا (سفارش کی نوعیت کی وجہ سے) تو پھر شائد میں اتنا قصور وار نہ ہوتا۔ میں نے واپس آ کر یہ تمام تفصیل اپنے باس (جنہوں نے مجھے اس سلیکشن بورڈ کے لئے نامزد کیا تھا) سے بھی ذکر کی اور ان سے کہا کہ اس کرپشن والے معاملے کو ہائر مینجمنٹ کے نوٹس میں لائیں جس پر انہوں نے میرے موقف کی تائد کی اور یہ یقین دہانی کروائی کہ اس معاملے کو اوپر تک ذکر کیا جائے گا۔بعد ازاں میرے باس نے اس بات کا ذکر ہماری ڈویژن کے جنرل مینیجر سے بھی کیا اور سارے معاملات ان کے نوٹس میں لے کر آئے۔ اس پر ہمارے جنرل منیجر نے بھی حیرت کا اظہار کیا اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام  کے حوالے سے اقدامات لینے کے عزم کا بھی اظہار کیا- اس کے ساتھ ہی یہ بھی حکم دیا کہ اس سفارشی بھرتی کو مستقل ملازمت نہ دی جائے۔ واضح رہے کہ ہمارے ادارے کی پالیسی کے مطابق ایسے ملازمین دو سال کے تربیتی پروگرام کے تحت عارضی طور پر بھرتي کیے جاتے ہیں۔ دو سال مکمل ہونے پر جگہ کی دستیابی اور کارکردگی کی بنیاد پر مستقل ملازمت آفر کی جاتی ہے۔ مزید یہ کہ مستقل نہ ہونے کی صورت میں بھی دو سالہ تربیت کا سرٹیفکیٹ ادارے کی طرف سے دیا جاتا ہے جس کی بنیاد پر کسی اور ادارے میں بھی عموماً آسانی سے نوکری حاصل کی جا سکتی ہے ۔ مزید میں نے مستقبل میں کسی بھی ایسے بورڈ کے لئے نامزدگی سے معذرت بھی کر لی جس میں مجھے اصولوں پر سمجھوتہ کرنا پڑے۔     اس   تمام  تفصیل   کی مد میں درج ذیل سوالات کے جوابات درکار ہیں:

  1. کیا اس معاملے پر میرا اُوپر ذکر کردہ انداز اور مزاحمت کافی تھی؟اگر نہیں تو ازروئے شریعت کس حد تک مزاحمت کرنا ضروری تھا؟ اگر کبھی مستقبل میں ایسی صورت پیش آئے تو کیا کیا جائے؟
  2. کیا میرے لیے اس امیدوار / شخص سے معافی مانگنا ضروری ہے جو اس غیر منصفانہ بھرتی کے نتیجہ میں اپنے جائز حق سے محروم رہا؟ واضح رہے کہ میرے لیے اس حقدار امیدوار کی معلومات لینا اتنا آسان نہیں ہو گا اور اس حوالہ سے کچھ غیر قانونی کوشش بھی کرنا پڑ سکتی ہے اور جھوٹ بولنے کی ضرورت بھی پڑ سکتی ہے  جو کہ صرف معلومات کے حصول تک ہو گی اور بظاہر کسی کا نقصان نہیں ہو گا – کیا ایسا کرنا ٹھیک ہو گا؟ اور کیا صرف اس حقدار امیدوار کی معافی کافی ہو گی؟ اگر اس نے معاف نہ کیا تو کیا اس صورت میں کوئی تلافی کی صورت ممکن ہے؟
  3. اگر میں کسی بھی طرح اس امیدوار کے بارے میں معلومات حاصل نہ کر سکا، تو اس صورت میں اس سارے معاملے میں تلافی کی کیا صورت ہو گی؟

اس پورے معاملے کی وجہ سے بندہ سخت ذہنی دباؤ کا شکار ہے چونکہ حقوق العباد کا معاملہ بڑا سخت ہے۔ ازراہ کرم تفصیلی جواب دے کر تشفّی فرمائیں۔  رابطہ کی تفصیلات درج  ذیل  ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1.آپ کے لیے مذکورہ معاملے میں ذکر کردہ مزاحمت کافی نہیں تھی بلکہ آپ کو دستخط کرنے سے صاف انکار کر دینا چاہیے تھاتاہم اگر انکار کرنے کی صورت میں ملازمت جانے کا غالب گمان ہوتا اور ملازمت کا چلا جانا معاشی لحاظ سے آپ کے لیے ناقابل برداشت ہوتا تو ایسی صورت میں دستخط کرنے کی گنجائش ہوتی۔

2.3.  اس امیدوار سے معافی مانگنا ضروری نہیں  بلکہ توبہ استغفار کر لینا کافی ہے۔

بحوالہ (امداد الفتاوی:3/439سوال:453)۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved