• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

رجوع کرنے میں میاں بیوی کا اختلاف ہو تو کس کا قول معتبر ہوگا؟

استفتاء

گذارش ہے کہ میری بیٹ**دخت** کا نکاح ** ولد** سے*** میں ہوا۔** نے****کو** کو ایک طلاق دی اس کے دوسرے دن اسے میں اپنے گھر لے  آیا،اس کے بعد**نے رجوع نہیں کیا۔ برائے مہربانی شریعت کے مطابق فتویٰ صادر فرمائیں کہ یہ نکاح قائم ہے یا ختم ہوچکا ہے؟

بیوی کا بیان:

جب طلاق کا معاملہ ہوا تو میں ان کے گھر ہی تھی، اگلے دن مجھے ابو لے گئے تھے لیکن شوہر نے رجوع والا کوئی کام نہیں کیا تھا، نہ تو زبان سے اور نہ کوئی اور معاملہ۔ وہ غصے میں تھے اور رات بھی غصے میں رہے اور مجھے ہاتھ تک نہیں لگایا، باقی باتیں  توبعد کی ہیں اگلے دن میں والد کے گھر آگئی تھی اور  والد کےگھر آنے کے بعد بھی کبھی انہوں نے رجوع کا نہیں کہا تھا۔

شوہر کا بیان:

شوہرسے دارالافتاء کے فون سے رابطہ کیا گیا تو اس نے مندرجہ ذیل بیان دیا:

میری بیوی باز نہیں آرہی  تھی اور بات نہیں مان رہی تھی تو میں نے اسے ڈرانے کے لیے کہ یہ باز آجائے  ایک دفعہ طلاق دی تھی کہ "میں نے تمہیں طلاق دی”  لیکن اس کے بعد بیوی میرے  ساتھ دو تین دن رہی، میرے ساتھ سوئی ،رات کو بیوی کو ٹچ بھی کیا تھا ، ہمبستری کا مجھے کنفرم نہیں البتہ اس کے علاوہ بوس وکنار ہوا تھا اور میں نے بھائی ، والدہ ، ماموں اور خالہ کو کہا بھی تھا کہ میرا رجوع ہے، میں نے رجوع کرلیا ہے البتہ بیوی کے سامنے رجوع کے الفاظ نہیں کہے تھے، دو تین دن بعد بیوی کے والد آئے میں کام پر تھا تو وہ اپنی بیٹی کو لے گئے اور اب تک ان کے  پاس ہی ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت  میں اگر عورت اس بات میں سچی ہے کہ اس کے شوہر نے نہ زبان سے کوئی رجوع کیا تھا اور نہ کسی عمل سے رجوع کیا تھا تو عورت کے حق میں رجوع ثابت نہ ہو گا تاہم اگر شوہر عدالت میں اپنے رجوع کو گواہوں سے ثابت کر دے تو عدالت رجوع کا فیصلہ کر دے گی نیز اگر  عورت جھوٹی ہے تو پھر رجوع ثابت ہے۔

تنویر الابصار (4/443) میں ہے:

صريحه ما لم يستعمل إلا فيه كطلقتك وأنت طالق ومطلقة ويقع بها واحدة رجعية وإن نوى خلافها أو لم ينو شيئا

فتاویٰ عالمگیری (1/470) میں ہے:

لو اتفقا على ‌انقضاء ‌العدة واختلفا في الرجعة فالصحيح أن القول قولها وعليه الجمهور كذا في غاية السروجي ولا يمين عليها عند أبي حنيفة رحمه الله تعالى كذا في الهداية وإن كانت العدة باقية فالقول قوله في الصحيح كذا في غاية السروجي.ولو أقام بينة بعد العدة أنه قال في عدتها قد راجعتها أو أنه قال قد جامعتها كان رجعة كذا في البحر الرائق

بدائع الصنائع (3/180) میں ہے:

أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد، فأما زوال الملك، وحل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لا يثبت للحال، وإنما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة، فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت.

در مختار (5/42) میں ہے:

”وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالاجماع“

ردالمحتار(5/31) میں ہے:

(ادعاها بعد العدة فيها) بأن قال ‌كنت ‌راجعتك في عدتك (فصدقته صح) بالمصادفة (وإلا لا) يصح إجماعا (و) كذا (لو أقام بينة بعد العدة أنه قال في عدتها قد راجعتها أو) أنه (قال قد جامعتها) وتقدم قبولها على نفس اللمس والتقبيل فليحفظ (كان رجعة)

وفی الشامية: «(قوله: ادعاها) أي الرجعة بعد العدة فيها أي في العدة والظرف متعلق بادعى، والجار والمجرور متعلق بالضمير العائد على الرجعة أي ادعى بعد العدة الرجعة في العدة فهو على حد قول الشاعر:

وما هو عنها  بالحديث المترجم

أي وما الحديث عنها (قوله: صح بالمصادقة) لأن النكاح يثبت بتصادقهما فالرجعة أولى بحر. وظاهره ولو كانا كاذبين، ولا يخفى أن هذا حكم القضاء، أما الديانة فعلى ما في نفس الأمر (قوله: وإلا لا يصح) أي ما ادعاه من الرجعة لأنه أخبر عن شيء لا يملك إنشاءه في الحال وهي تنكره، فكان القول لها بلا يمين لما عرف في الأشياء بحر: أي الآتية في كتاب الدعوى حيث قال المصنف هناك: ولا تحليف في نكاح ورجعة وفي إيلاء واستيلاد ورق ونسب وولاء وحد ولعان والفتوى على أنه يحلف في الأشياء السبعة اهـ أي السبعة الأولى، وهذا قولهما أما الأخيران فلا تحليف اتفاقا (قوله: ولذا) أي لكونه لا يقبل قوله إذا لم تصدقه لو أقام بينة تقبل لأنه إذا كان القول لها تكون البينة عليه لأن البينة لإثبات خلاف الظاهر وفي نسخة وكذا بالكاف وكلاهما صحيحتان فافهم (قوله: وتقدم إلخ) أي فصل المحرمات ح حيث قال وتقبل الشهادة على الإقرار باللمس والتقبيل عن شهوة، وكذا تقبل على نفس اللمس والتقبيل والنظر إلى ذكره، أو فرجها عن شهوة في المختار تجنيس لأن الشهوة ربما يوقف عليها في الجملة بانتشار أو آثار اهـ وقدمنا قريبا أن القول لمدعي الشهوة في المعانقة مع الانتشار والمس للفرج والتقبيل على الفم وهو مؤيد لقبول الشهادة بالشهوة

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم    

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved