• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ادویات میں الکوحل اور نشہ کی چیزوں کا استعمال

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلے کے بارے میں کہ آج کل بعض ڈاکٹر مریض کو ایسی دوائی یا شربت لکھ کر دیتے ہیں، جن میں الکوحل یا نشہ آور چیزیں ملی ہوتی ہیں۔ آیا کہ ایسی صورت میں یہ دوائی استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جس دوائی یا شربت میں الکوحل یا نشہ آور چیز ملی ہو اسے استعمال کر سکتے ہیں۔ کیونکہ الکوحل یا نشہ آور چیز کا اشربہ اربعہ محرمہ میں سے ہونا یقینی نہیں، اور دیگر اشربہ میں اختلاف ہے اور دوائیوں کے استعمال میں عموم بلویٰ کی وجہ سے جواز کے قول کو لیے بغیر چارۂ کار نہیں۔ تفصیل ’’بہشتی زیور:ص: 773‘‘ اور ’’ مریض و معالج کے اسلامی احکام‘‘ مؤلفہ ڈاکٹر مفتی عبد الواحد صاحب میں ہے۔[1]

[1] ۔ مزید حوالہ جات:

کتاب الفتاویٰ (6/ 205) میں ہے:

’’سوال: کیا بطور دوا الکحل کا استعمال جائز ہے، جیسا کہ آج کل بعض ادویہ اور ہیر آئل میں الکحل کی آمیزش ہوتی ہے؟

جواب: الکحل اگر انگور سے بنا ہو تو تب اس کے شراب (خمر) ہونے پر اتفاق ہے۔ کیونکہ اس بات پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ انگور سے تیار ہونے والی منشیات خمر ہیں، یہ حرام بھی ہے اور نا پاک بھی۔ انگور کے علاوہ دوسرے نباتات سے جو نشہ آور محلول تیار کیا جائے اس کے بارے میں اس بات پر تو اتفاق ہے کہ اگر نشہ آنے کے بقدر پیا جائے تو حرام اور گناہ ہے۔ کیا وہ اس خمر کا  مصدق ہے جس کا قرآن میں ذکر آیا ہے؟ اس میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک وہ خمر نہیں، اس لیے نشہ کے بقدر اس کا پینا تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک بھی حرام ہے لیکن وہ خمر کی طرح نا پاک نہیں، گویا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک جو الکحل انگور کے علاوہ کسی اور شی سے حاصل کیا گیا ہو وہ نا پاک نہیں۔ جمہور فقہاء کے نزدیک تمام نشہ آور کا حکم یکساں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جہاں تک الکحل کے نشہ آور ہونے کی بات ہے تو غالباً اب تک تحقیق یہی ہے کہ یہ نشہ آور ہوتا ہے بلکہ یہ جوہر شراب ہے۔ دواؤں میں اس کا استعمال اس لیے کیا جاتا ہے کہ وہ دواؤں کی افادات کو زیادہ دیر تک بر قرار رکھ سکتا ہے اور وہ ایسا محلول ہے کہ دوسرے اجزاء کو بھی اچھی طرح حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اس تفصیل سے واضح ہو گیا کہ انگور سے تیار کیا ہو الکحل بالاتفاق حرام اور نا پاک ہے اور وہ نجاست غلیظہ ہے، دوا کے لیے تو ازراہ ضرورت اس کا استعمال جائز ہے۔‘‘

مجموعۃ الفتاویٰ (2/ 232) از مولانا عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ میں ہے:

’’سوال: جو انگریزی دوائیں ولایت سے بن کر آتی ہیں یا بسکٹ وغیرہ جو ولایت سے بن کر آتے ہیں ان میں امتزاج شراب کا شبہ ہے۔ کیونکہ ڈاکٹروں نے بعض دواؤں اور بسکٹوں میں شراب کا اختلاط بتایا ہے، ان کا استعمال کرنا کیسا ہے؟

الجواب: جب اختلاط شراب کا یقین یا ظن ہو تو ان کا استعمال ممنوع ہے، ورنہ بطور فتویٰ نفس جواز اور بطور تقویٰ اجتناب ہو گا۔‘‘

فتاویٰ حقانیہ (6/ 103) میں ہے:

’’امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اشربہ اربعہ کے علاوہ جب شراب دیگر اناج و اشیاء سے بنائی گئی ہو تو بصورت شرعی مجبوری استعمال کرنا جائز ہے ۔۔۔۔ موجودہ الکوحل جو کہ شراب ہی کی ایک قسم ہے، چونکہ پٹرول، جو، مکئی وغیرہ اشیاء سے بنائی جاتی ہے اور ضرورتاً بہت ساری ادویات و رنگوں کے علاوہ دیگر کیمیکلز میں بھی اس کا استعمال ہوتا ہے، اس لیے بنا بر قول امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اس کی خرید و فروخت جائز ہے۔ موجودہ دور میں عموم بلویٰ کی وجہ سے اسی پر فتویٰ ہے۔‘‘  فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved