- رابطہ: 3082-411-300 (92)+
- ای میل: ifta4u@yahoo.com
- فتوی نمبر: 9-329
- تاریخ: جولائی 16, 2024
- عنوانات: حلال و حرام, طب، علاج و معالجہ
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کافی عرصے سے میری نظر بہت زیادہ کمزور ہے نظر کو ٹھیک کرنے کے لیے ایک حکیم صاحب سے مشورہ کیا انہوں نے سانپ کی کھال کو دوائی میں ملا کر کھانے کا اور آنکھوں پر ملنے کا مشورہ دیا (جو کھال خشک ہو کر سانپ اتار دیتا ہے) کیا شریعت کی رو سے سانپ کی کھال (1) آنکھوں پر ملنا اور (2) کھانا درست ہے یا نہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
سانپ کی کھال جسے حضرات فقہاء کرام سانپ کی قمیص کہتے ہیں پاک ہے لہذا اس کھال کو دوائی میں ملا کر آنکھوں پر ملنا یا آنکھوں میں لگانا جائز ہے۔ اور علاج کے طور پر ایسی دوائی کو کھانے کی بھی گنجائش ہے۔
توجیہ: اس کھال کو دوائی میں ملا کر آنکھوں پر ملنے کے جواز میں تو کچھ اشکال نہیں کیونکہ یہ کھال پاک ہے اور پاک چیز اگرچہ غیر ماکول اللحم کا جز ہی کیوں نہ ہو اس کا خارجی استعمال جائز ہے۔
بہشتی زیور (775) میں ہے:
اور ایسا جزء کاٹ کر کام میں لانا جو غیر ذی حس ہو، جیسے ہاتھی کا دانت کاٹ لیں یا بکری کے بال کاٹ لیں تو یہ پاک ہیں اگر حلال جانور کا جزء ہے تو کھانا بھی حلال ہے اور غیر ماکول کا جزو ہے تو صرف خارجاً درست ہے۔
حاشیہ میں ہے:
بنا بریں سانپ کا دانت سرمہ میں ڈالنا جائز ہے خواہ زندہ کا لیا جائے یا مردہ کا۔ ہاں کھانے کی دوا میں ڈالنا جائز نہیں کیونکہ حیوان غیر ماکول کا جز ہے۔
باقی رہی ایسی دوا کو کھانے کی گنجائش، تو اس بارے میں عام ضابطہ تو یہی ہے کہ جس مرض کی کوئی حلال دوا میسر نہ ہو اور حرام دوا کے استعمال سے طبیب حاذق مسلم کی رائے میں تندرستی کا ظن غالب ہو تو حرام دوا کا استعمال کھانے میں بھی جائز ہے۔ اور متاخرین حنفیہ کے نزدیک اس صورت کے جواز میں کچھ اشکال نہیں۔ چنانچہ ہندیہ میں ہے:
یجوز للعلیل شرب الدم والبول وأكل الميتة للتداوي إذا أخبره طبيب مسلم أن شفاءه فيه ولم يجد من المباح ما يقوم مقامه. (5/355)
لیکن اگر کسی مرض کے لیے حلال دوا میسر تو ہو لیکن طبیب حاذق مسلم کی رائے میں حرام دوا کے استعمال سے جلد شفایاب ہونے کا ظن ہوتو ایسی صورت میں بھی حرام دوا کا استعمال کرنے کی گنجائش ہے اگرچہ احتیاط بہتر ہے۔
چنانچہ ہندیہ میں ہے (5/355):
وإن قال الطبيب يتعجل شفاءك فيه وجهان.
نیز جواہر الفقہ (7/47) میں ہے:
’’مریض کو خون دینے میں یہ تفصیل ہے:
1۔ جب خون دینے کی ضرورت ہو، یعنی کسی مریض کی ہلاکت کا خطرہ ہو اور ماہر ڈاکٹر کی نظر میں اس کی جان بچانے کا اس کے سواء کوئی راستہ نہ ہو تو خون دینا جائز ہے۔
2۔ جب ماہر ڈاکٹر کی نظر میں خون دینے کی حاجت ہو یعنی مریض کی ہلاکت کا خطرہ تو نہ ہو لیکن ماہر ڈاکٹر کی نظر میں خون دیے بغیر صحت کا امکان ہو اس وقت بھی خون دینا جائز ہے۔
3۔ جب خون دینے کی گنجائش ہے مگر اجتناب بہتر ہے۔ لما فی الهندية: إن قال الطبيب يتعجل شفاءك فيه وجهان.
4۔ جب خون دینے سے محض منفعت یا زینت مقصود ہو یعنی جب ہلاکت یا مرض کی طوالت کا اندیشہ نہ ہو بلکہ محض قوت بڑھانا یا حسن میں اضافہ کرنا مقصود ہو تو ایسی صورت میں خون دینا ہرگز جائز نہیں۔ ‘‘
نیز حرام دوا کے کھانے کے بارے میں مذکورہ بالا تفصیل بھی اس وقت ہے جبکہ اس کی حرمت متفق علیہ ہو۔ لیکن اگر اس کی حرمت متفق علیہ نہ ہو خواہ اس میں خود حنفیہ کا اختلاف ہو جیسے اشربہ اربعہ محرمہ کے علاوہ دیگر شرابیں تو علاج کی غرض سے ایسی دوا کا کھانا جائز ہو گا۔ جیسے ایلوپیتھک دواؤں میں الکوحل کے باوجود ان کے استعمال کی گنجائش ہے۔
یا اس کی حرمت میں دیگر ائمہ میں سے کسی امام کا اختلاف ہو جیسے مچھلی کے علاوہ دیگر دریائی جانوروں کی حرمت مختلف فیہ ہے لہذا اگر کسی دواء میں مچھلی کے علاوہ پانی کا کوئی ایسا جانور یا اس کا کوئی جز ڈالا جائے جو کہ دوسرے ائمہ کے ہاں حلال ہو تو علاج کی ضرورت کی خاطر دوسرے امام کے قول کو لینے کی گنجائش ہو گی اور ایسی دوا کا استعمال کھانے میں بھی جائز ہوگا۔
چنانچہ فتاویٰ رشیدیہ (636) میں ہے:
’’سوال: بقول اطباء حیوان بحری کا کھانے کی دوا میں استعمال جائز ہے یا نہیں؟
جواب: استعمال اس کا جائز ہے اور وہ پاک ہے اگرچہ وہ غیر ماہی ہو کہ دیگر ائمہ کے نزدیک وہ جائز ہے اور ضرورتاً احناف کے نزدیک بھی جائز ہے۔‘‘
ہماری مذکورہ صورت میں سانپ کی کھال غیر ماکول اللحم کا جز ہے اس لیے حنفیہ کے عام ضابطے کے مطابق اس کی کھانے میں استعمال کی گنجائش نہ ہو گی لیکن چونکہ سانپ حشرات الارض میں سے ہے اور امام مالک رحمہ اللہ حشرات الارض کی حرمت کے قائل نہیں بلکہ کراہت تنزیہی کے قائل ہیں اس لیے اس کھال کو علاج کے طور پر کھانے کے لیے امام مالک رحمہ اللہ کے قول کو لینے کی اجازت ہو گی۔
بہشتی زیور (ص: 776) میں ہے:
’’اکثر حشرات الارض ۔۔۔ جس میں دم سائل نہ ہو خارجاً ان کا استعمال ہر طرح درست ہے اور داخلاً سب حرام ہے۔
خلافاً لمالك رحمه الله فإنه قال بكراهة حشرات الأرض دون حرمتها لأن الأصل في الأشياء الإباحة.‘‘
مدونۃ الکبریٰ (2/171) میں ہے:
سمعت مالكاً يقول في الحيات إذا ذكيت في موضع ذكاتها أنه لا بأس بأكلها لم احتاج إليها، قال ولم أسمع من مالك في هوام الأرض شيئاً إلا إني سمعت مالكاً يقول في خشاش الأرض كله إنه إذا مات في الماء أنه لا يفسد الماء والطعام وما لم يفسد الماء والطعام فليس بأكله بأس إذا أخذ حياً فصنع به ما يصنع بالجراد.
الفقہ الاسلامی وادلتہ (4/2594) میں ہے:
وقال المالكية: يباح بالذكاة أكل خشاش الأرض كعقرب وخنفساء وبنات وردان وجندب ونمل ودود وسوس ويباح أيضاً أكل حية أمن سمها إن ذبحت بحلقها.
خلاصہ یہ ہے کہ اس دوا کو کھانے میں استعمال کی گنجائش ہے اگرچہ احتیاط بہتر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved