• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

آرٹیفیشل انگوٹھی اور چوڑیوں وغیرہ کا حکم

استفتاء

4۔ سونے چاندی کے علاوہ کسی بھی دھات کی انگوٹھی کا کیا بیان ہے، اس کا پہننا کیسا ہے؟ جبکہ چوڑیاں، چین وغیرہ تو جائز ہے تو پھر انگوٹھی کو کیوں منع کیا جاتا ہے۔ برائے مہربانی تفصیلی جواب مرحمت فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

4۔ سونے چاندی کے علاوہ سب دھاتوں کی انگوٹھی منع نہیں بلکہ صرف لوہا، پیتل، تانبا اور رانگ کی انگوٹھی منع ہے اور وہ بھی تب جبکہ انگوٹھی پر سونے یا چاندی کا پانی چڑھا ہوا نہ ہو۔

باقی رہی یہ بات کہ لوہے، پیتل وغیرہ کی چوڑیاں، چین وغیرہ جائز ہیں تو پھر انگوٹھی جائز کیوں نہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انگوٹھی کی ممانعت حدیث میں آئی ہے اس لیے یہ جائز نہیں جبکہ چوڑی یا چین وغیرہ کی ممانعت کسی حدیث سے ثابت نہیں اس لیے ان کی اجازت ہے۔

مشکوٰۃ شریف (ص: 378) میں ہے:

عن بريدة أن النبي صلى الله عليه و سلم قال لرجل عليه خاتم من شبه، فقال: «ما لي أجد منك ريح الأصنام؟»، فطرحه ثم جاء وعليه خاتم من حديد، فقال: «ما لي أرى عليك حلية أهل النار؟»، فطرحه فقال يا رسول الله:  من أي شيء أتخذه؟ قال: «من ورق».

ترجمہ: حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک شخص سے جو پیتل کی انگوٹھی پہنا ہوا تھا فرمایا کہ کیا بات ہے مجھے تمہارے پاس سے بتوں کی بو آرہی ہے (کیونکہ بت عام طور سے پیتل سے بھی بنائے جاتے ہیں) اس پر اس شخص نے وہ انگوٹھی (اتار کر) پھینک دی۔ پھر وہ دوبارہ آیا تو (اب) وہ لوہے کی انگوٹھی پہنا ہوا تھا تو آپ نے فرمایا کیا بات ہے کہ میں تمہیں جہنمیوں کا زیور پہنے دیکھ رہا ہو۔ (مطلب یہ تھا کہ مسلمان کو ان چیزوں کی انگوٹھی پہننی جائز نہیں) اس شخص نے انگوٹھی (بھی اتار کر) پھینک دی اور پوچھا اے اللہ کے رسول! میں کس چیز کی انگوٹھی پہنوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: چاندی کی (انگوٹھی پہن سکتے ہو)۔

فائدہ نمبر 1: چونکہ لوہے اور پیتل کی انگوٹھی کی جو علت بتائی وہ مردوں کے ساتھ خاص نہیں اس لیے عورتوں کو بھی اس سے اجتناب کا حکم ہے لیکن اس علت کے پیش نظر لوہے اور پیتل کے دیگر استعمال کو منع نہیں فرمایا مثلا جنگوں میں لوہے کا خود پہنتے تھے اور زرہیں استعمال کرتے تھے، اور لوگ گھروں میں کھانے پینے میں پتیل کے برتن استعمال کرتے تھے ۔اسی طرح عورتوں کو لوہے ، پیتل وغیرہ سے بنے دیگر زیورات سے بھی منع نہیں کیا اس لیے عورتوں کو انگوٹھی کے علاوہ ان دھاتوں کے بنے ہوئے دیگر زیورات پہننا جائز ہے۔

فائدہ نمبر 2: اس حدیث سے دو دھاتوں کی انگوٹھی کی ممانعت ثابت ہوئی (1) تانبا (2) لوہا۔ باقی دو دھاتوں یعنی پیتل اور رانگ کی انگوٹھی کی ممانعت اس لیے ہے کہ پیتل، تانبے کی اور رانگ، لوہے ہی کی ایک قسم ہے۔

فتاویٰ ہندیہ (5/359)

ولا بأس للنساء بتعليق الخرز في شعورهن من صفر أو نحاس أو شبه أو حديد و نحوها للزينة و السوار منها.

امداد الفتاویٰ (4/136) میں ہے:

وفي رد المحتار عن الجوهرة: و التختم بالحديد و الصفر و النحاس والرصاص مكروه للرجال و النساء … قلت: و قد تقرر في محله أن مفاهيم الروايات حجة. بناء بر جزی و کلی مذکورین کے ثابت ہوا کہ بجز انگشتری کے دوسرا زیور حدید و صفر و نحاس و رصاص عورتوں کے لیے جائز ہے۔

امداد الاحکام میں ہے:

والنحاس والصفر نوع واحد، وكذا الحديد والرصاص. (4/358).

اعلاء السنن (17/326) میں ہے:

فلذا قال أصحابنا الحنفية بكراهة خاتم الحديد و الشبه و الصفر و النحاس.

أما خاتم الحديد و الشبه فلورود النص فيهما وأما خاتم النحاس و الصفر فلأنهما من جنس الشبه.

أيضا (324):

والبحث الثالث: أن النهي عن خاتم الحديد و غيره مخصوص بالخالص منه أو شامل لما لوي عليه الفضة أيضاً؟ فنقول: إن الملوي عليه الفضة ليس بممنوع أما أولاً فلأنه روي … عن إياس عن جده أن خاتم النبي صلى الله عليه و سلم كان من حديد ملوي عليه الفضة و ربما كان في يده.

فتاویٰ عالمگیری (5/335) میں ہے:

لا بأس بأن يتخذ خاتم حديد قد لوي عليه فضة أو ألبس بفضة حتى لا يرى كذا في المحيط.

…………………..فقط و الله تعالى أعلم

 

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved