- فتوی نمبر: 33-194
- تاریخ: 21 جون 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
میری امی کا ایک آفس تھا جو انہوں نے اپنی زندگی میں بیچ دیا جو 82 لاکھ کا بکا۔اس میں سے کچھ ٹيكس کٹا اور کچھ کی انہوں نے اپنے داماد کے لیے گاڑی خرید لی۔اور کچھ بینک میں میرے اور اپنے نام سے اکاؤنٹ کھلوا کر اس میں انویسٹ کر دیا۔ جس سے ماہ وار نفع آتا رہا۔مشترکہ اکاؤنٹ اس لیے کھلوایا تھا کہ ایک بندہ فوت ہو جائے تو دوسرا استعمال کرتا رہے اکاؤنٹ والدہ کی حیات میں والدہ کے استعمال میں رہا ۔وفات کے بعد ایک سال تک پیسے اکاؤنٹ میں رہے پھرمیں (بیٹی ) نکلوا کر استعمال کرتی رہی۔
میں ان کی ایک ہی بیٹی ہوں اور میرے علاوہ کوئی اولاد ان کی نہیں ۔میری والدہ کے دو بھائی بہن ہیں جو ان کے انتقال کے وقت حیات تھے۔باقی بہن بھائی ان کی وفات سے قبل ہی فوت ہو چکے تھے۔معلوم یہ کرنا تھا کہ میری والدہ کی وراثت کس طرح تقسیم ہوگی؟ میرے والد اور نانا نانی والدہ سے پہلے ہی فوت ہو گئے تھے۔پیسوں کی تفصیل نیچے درج ہے۔ آفس 82 لاکھ کا بکا۔پانچ لاکھ ٹیکس وغیرہ میں گیا۔9لاکھ کی گاڑی جو کہ والدہ نے اپنے داماد کو خرید کر دی تھی ۔ بقیہ رقم 68 لاکھ بچے۔40 لاکھ بینک میں انویسٹ کیا باقی 28 لاکھ بچے ۔28 لاکھ میں سے6 لاکھ ٹیکس دیا تو باقی 22 لاکھ بچے۔
وضاحت مطلوب ہے: 1۔والدہ نے جو رقم بینک میں بیٹی کے ساتھ مشترکہ اکاؤنٹ میں جمع کروائی تھی تو کیا کبھی کسی کے سامنے والدہ نے اس بات کی وضاحت کی تھی کہ میری بیٹی اکاؤنٹ میں برابر کی مالک ہے یا بینک کی رقم بیٹی کو گفٹ ہے؟2۔6 لاکھ ٹیکس کس چیز کا تھا؟
جواب وضاحت: 1۔والدہ نے اپنی زندگی میں اپنے ایک بھائی، ایک بھانجی اور بھانجیوں کے سامنے یہ بات کہی تھی کہ اس اکاؤنٹ میں جو رقم ہے یہ میری بیٹی کی ہوگی۔2۔ یہ بھی آفس کے بِل ، بقایا جات وغیرہ تھے جو بعد میں ادا کردیے تھے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
آپ کی والدہ کا کل ترکہ یعنی مشترکہ اکاؤنٹ کی رقم 40 لاکھ اور بقیہ 22 لاکھ ورثاء میں ان کے حصوں کے بقدر تقسیم ہوگا۔ البتہ اگر ورثاءاپنی خوشی سے اس وصیت پر عمل کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں اس صورت میں اکاؤنٹ کی رقم بطور وصیت بیٹی کو مل جائے گی اور باقی رقم ورثاء میں حصوں کے بقدر تقسیم ہوگی۔
تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ مرحومہ کے ترکہ کو 6 حصوں میں تقسیم کیا جائے گا ان میں سے مرحوم کی بیٹی کے 3 حصے (50 فیصد)، مرحومہ کے بھائی کے 2 حصے (33.33فیصد ) اور مرحومہ کی بہن کو 1 حصہ(16.67فیصد )ملے گا۔ اس تفصیل کے مطابق بیٹی اگر اپنے حصے سے زائد رقم استعمال کرچکی ہے تو وہ اس کے ذمہ واجب الاداء ہے۔
رقم کی تقسیم درج ذیل ہے:
بیٹی | 31,00,000 |
بھائی | 20,66,666 |
بہن | 10,33,333 |
توجیہ: مشترکہ اکاؤنٹ میں جو رقم رکھی جاتی ہے اس رقم کے مالک سارے شرکاء نہیں ہوتے بلکہ شرکاء کی حیثیت یہ ہوتی ہے کہ وہ رقم کو نکلوا سکتے ہیں اس کے علاوہ رقم کا مالک وہی ہوتا ہے جس کی رقم ہو الّا یہ کہ مالک خود وضاحت کر دے کہ دوسرا شریک بھی اس رقم کا مالک ہے جبکہ مذکورہ صورت میں مشترکہ اکاؤنٹ کے بارے میں کسی ایسی بات کا تذکرہ نہیں ملا جس سے یہ بات معلوم ہو کہ والدہ نے اکاؤنٹ کی رقم کا زندگی میں بیٹی کو مالک بنا دیا تھا اور جہاں تک ان الفاظ کا تعلق ہے “میرے مرنے کے بعد میری بیٹی کی ہوگی” یہ وصیت کے الفاظ ہیں مالک بنانے کے نہیں اور بیٹی چونکہ وارث ہے اور وارث کے حق میں دیگر ورثاء کی رضامندی کے بغیر وصیت معتبر نہیں ہوتی، لہٰذا یہ وصیت دیگر ورثاء کی رضامندی پر موقوف ہوگی۔ اگر وہ اجازت دیں تو اسے پورا کیا جائے گا ورنہ نہیں۔
ہندیہ(6/90) میں ہے:
ولا تجوز الوصية للوارث عندنا الا ان يجيزها الورثة.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved