• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

بیوہ کے دوسری جگہ شادی کرنے سے سابقہ شوہر کی وراثت میں حصہ ہوگا یا نہیں؟

استفتاء

1۔بیوہ  فاطمہ  کی دو لڑکیاں تھیں، پہلے خاوند سے وراثت میں 950 فٹ کا گھر ملا اس میں اس کو یہ پتہ نہیں کہ اس کو اپنا حصہ ملا یا بچوں کا حصہ ملا،دوسری شادی کرنے کے بعد پہلے والے شوہر  زید  کی جائیداد میں  اس بیوہ کا حق ہوگا یا نہیں؟ اگر ہوگا تو کتنا حصہ ملے گا اور بچیوں کو کتنا حصہ ملے گا؟ دوسری جگہ شادی کرنے کے بعد بیوہ سے اس کے سابقہ  شوہر والے وہ حصہ واپس لے سکتے ہیں یا نہیں اور ان دو بچیوں سے حصہ لے سکتے ہیں یا نہیں؟

نوٹ:جگہ کے کاغذات بیوہ کے نام  ہیں۔

2۔اگر کوئی بیوہ عورت دوسری شادی کر لے تو اس کا پہلے شوہر کی  جائیداد میں حصہ رہے گا یا نہیں؟

3۔بیوہ کی جو دو بچیاں ہیں جو پہلے والے شوہر سے تھیں دوسرے شوہر  خالد  شریعت کی رو سے ان کا باپ ہے یا نہیں اور  خالد کی جائیداد میں ان بچیوں کا حق ہوگا یا نہیں؟

نوٹ:ایک بچی 8 سال کی ہے  اور دوسری 10 سال کی ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1-مذکورہ صورت میں بیوہ کو  اپنے سابقہ شوہر کی وراثت میں سے آٹھواں حصہ ملے گا اور بچیوں کو دو تہائی حصہ ملے گا۔اور دوسری شادی کرنے کی صورت میں پہلے شوہر کے گھر والے واپسی کا مطالبہ نہیں کر سکتے۔

2-اگر کوئی بیوہ عورت دوسری شادی کرلے تو پہلے والے شوہر کی جائیداد میں اس بیوہ کا حصہ باقی رہے گا۔

3-مذکورہ صورت میں  خالد شرعاً ان بچیوں کا حقیقی باپ نہیں البتہ سوتیلا باپ ہے اور محرم ہے اور بچیاں اس کی ربیبہ ہیں   لہذا  خالد  کی وراثت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔

ہندیہ (6/450) میں ہے:

‌وأما ‌النساء ‌فالأولى البنت ولها النصف إذا انفردت وللبنتين فصاعدا الثلثان ………. ………. وللزوجة ‌الربع عند عدمهما والثمن مع أحدهما.

شامی (20/276) میں ہے:

(‌ويستحق ‌الإرث) ……. بأحد ثلاثة (برحم ونكاح وولاء)

فتاویٰ محمودیہ (20/276)میں ہے؛

سوال: میرے والد اپنی دکان کے خود مالک تھے, انہوں نے اپنی زندگی میں کئی مرتبہ میری والدہ کے سامنے کہا کہ میرے بعد یہ سب تیرا ہے۔میری والدہ کے ہمراہ پہلے شوہر سے دو لڑکیاں تھیں،پھر میں پیدا ہوئی،اب ماں چاہتی ہے کہ میرے باپ کی جائیداد میں ان پہلی دو لڑکیوں کو بھی شامل کرلے۔کیا از روئے شرع آئی لڑکیاں بھی میرے باپ کی جائیداد میں حقدار ہیں؟

جواب:تمہارے والد کے تم کو محض یہ کہہ دینے سے کہ”میرے بعد یہ سب تیرا ہے”ان کی  متروکہ جائیداد کی تم تنہا وارث نہیں ہوگی, بلکہ تمہارے والد کے ترکہ میں آٹھواں حصہ تمہاری والدہ کو ملے گا اور بقیہ کی تم مالک ہو گی،بشرطیکہ تمہارے والد کے دادا پر دادا میں سے کوئی مرد زندہ نہ ہو۔تمہاری والدہ کی دونوں لڑکیاں جو تمہارے والد سے نہیں وہ تمہارے والد کے ترکہ میں حقدار نہیں۔ہاں تمہاری والدہ اپنا آٹھواں حصہ تم کو اور ان کو دینا چاہتی ہیں تو دے سکتی ہیں۔

فتاویٰ محمودیہ (20/470)میں ہے؛

سوال:کیا اگر کوئی عورت بیوہ ہونے کے بعد دوسرے سے نکاح کر لے تو اس سےاپنے مرحوم شوہر کی جائیداد اور ملک سے مہر کا حق نہیں؟یہاں کی کمیٹی کا خیال ہے کہ اپنا کوئی حق اس عورت کو نہیں مل سکتا۔

جواب:بیوہ جب بعد عدت دوسرے سے نکاح کرے تو اس کا مہر اور حق وراثت مرحوم شوہر کے ترکہ سے ساقط نہیں ہوتا،بلکہ وہ حقدار رہتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved