• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

اکرم، ارحم ، اشال، عشال ،سعادہ اور سعادیٰ نام رکھنا

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل اسموں کے  بارے میں کہ:

1۔ صرف اکرم یا ارحم نام رکھنا کیسا ہے؟

2۔ مذکورہ ناموں کیساتھ آگے پیچھے اگر کوئی لفظ لگا دیا جائے مثلاً محمد اکرم ، اکرم خان، ، ارحم خان، محمد ارحم تو کیا ایسا کرنا صحیح ہے؟

3۔ عبدالارحمٍ نام رکھنا کیسا ہے؟

4۔ اِشال بچی کا نام رکھنا کیسا ہے اور معنیٰ کیا ہیں؟

5۔ یا عِشال بچی کا نام رکھنا کیسا ہے اور معنیٰ کیا ہیں؟

6۔ سعادیٰ بچی کا نام رکھنا کیسا ہے اور معنیٰ کیا ہیں؟

7۔ سعادہ بچی کا نام رکھنا کیسا ہے اور معنیٰ کیا ہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔اکرم اور ارحم نام رکھنا درست ہے ۔

2۔محمد اکرم،  اکرم خان،  ارحم خان، محمد ارحم نام رکھنا بھی درست ہے ۔

3۔عبدالارحم نام رکھنا درست ہے۔

4۔اشال کا معنی عربی اردو فارسی لغات میں  ہمیں نہیں ملا البتہ اگر نام رکھنا چاہیں  تو رکھ سکتے ہیں کیونکہ نام رکھنے کے لیے مطلب کا معلوم ہونا اگرچہ بہتر ہے تا ہم ضروری نہیں ۔

5۔عربی لغت میں  عِشال کا لفظ” عشل” سے نکلا ہے جس کا معنیٰ ہے “درست اندازہ لگانا” ۔لہٰذا یہ نام رکھنا درست ہے۔

6۔ سُعادیٰ (سین کے پیش کے ساتھ اور آخر میں یا ء)  کے مختلف معنی ہیں خوشبودار چیز ۔خوشبودار جڑی بوٹی  جو عطر اور دواؤں میں استعمال ہوتی ہے۔لہٰذا یہ  نام رکھنا درست ہے۔

7۔سعادۃ  (س کے زبر کے ساتھ اور آخر میں گول تاء کے ساتھ ) کا معنیٰ “نیک بختی “ہے، لہٰذا یہ  نام رکھنا  درست ہے۔

سنن  ترمذی  (5/ 664) میں ہے:

عن أنس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أرحم أمتي بأمتي أبوبكر.

الاستذکار ، لابی عمر یوسف بن عبداللہ بن محمد بن عبدالبر، ت:۴۶۳ھ (4/230) میں ہے:

وعن محمد بن مسلم الطائفي عن إبراهيم بن ميسرة عن مجاهد أنه سمع بن عمر وهو يرمل بين الصفا والمروة وهو يقول ‌اللهم ‌اغفر ‌وارحم وأنت العزيز الأرحم

شامی  (6/ 417) میں ہے:

وجاز التسمية بعلي ورشيد من الأسماء المشتركة ويراد في حقنا غير ما يراد في حق الله تعالى.

(قوله: وجاز التسمية بعلي إلخ) الذي في التتارخانية عن السراجية التسمية باسم يوجد في كتاب الله تعالى كالعلي والكبير والرشيد والبديع جائزة إلخ، ومثله في المنح عنها وظاهره الجواز ولو معرفاً بأل.

فتاوی ہندیہ (5/362) میں ہے:

وفي الفتاوى التسمية باسم لم يذكره الله تعالى في عباده ولا ذكره رسول الله صلى الله عليه وسلم  ولا ‌استعمله ‌المسلمون تكلموا فيه والأولى أن لا يفعل كذا في المحيط.

لسان العرب(11/448)  میں ہے:

“عشل: العَاشِلُ والعاشِنُ والعاكِلُ: المُخَمِّن الَّذِي يَظُنُّ فيُصِيب.”  

لسان العرب (3/213) ميں ہے:

سعد: السعد: اليمن، ‌وهو ‌نقيض ‌النحس، والسعودة: خلاف النحوسة، والسعادة: خلاف الشقاوة ……….. وقد ‌سعد ‌يسعد سعدا وسعادة، فهو سعيد: نقيض شقي

لسان العرب (3/216) میں ہے:

والسعد، ‌بالضم: ‌من ‌الطيب، والسعادى مثله. وقال أبو حنيفة: السعدة من العروق الطيبة الريح وهي أرومة مدحرجة سوداء صلبة، كأنها عقدة تقع في العطر وفي الأدوية، والجمع سعد؛ قال: ويقال لنباته السعادى والجمع سعاديات. قال الأزهري: السعد نبت له أصل تحت الأرض أسود طيب الريح، والسعادى نبت آخر. وقال الليث: السعادى نبت السعد. ويقال: خرج القوم يتسعدون أي يرتادون مرعى السعدان.

تیسیر البیان لاحکام القرآن  ، ابن نور الدين ، ت:۸۲۵ھ (1/6) ميں  ہے:

‌أما ‌والله ‌الأعز الأكرم، اللطيف الأرحم

نزہۃ المجالس  ومنتخب النفائس ، للصفوری ،ت:۸۹۴ھ (1/212) میں ہے:

‌لما ‌خلق ‌الله ‌القلم قال اكتب توحيدي لا إله إلا الله قال ثم اكتب محمد رسول الله فلما سمع القلم اسم محمد سجد وقال في سجوده سبحان الموصوف بالكرم سبحان الرءوف الأرحم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved