- رابطہ: 3082-411-300 (92)+
- ای میل: ifta4u@yahoo.com
- فتوی نمبر: 24-356
- تاریخ: اگست 15, 2024
- عنوانات: مالی معاملات, وراثت کا بیان
استفتاء
السلام علیکم جناب محترم:
میرا سوال یہ ہے کہ میرے نانا جی کا انتقال اکتوبر 2011 میں ہو گیا تھا ۔ان کی بیوی اور والدین ان کی زندگی ہی میں فوت ہوگئے تھے۔ ان کی وفات کے وقت ان کے نام جو پراپرٹی تھی وہ ایک عدد مکان رقبہ تقریبا ساڑھے سات مرلہ ہے جو کہ باغبان پورہ میں واقع ہے۔ ان کی اولاد میں دو بیٹے اور چار بیٹیاں حیات تھیں جن میں سے دو بیٹے اور دو بیٹیاں اب بھی حیات ہیں، اور دو بیٹیاں وفات پا گئی ہیں۔ جو دو بیٹیاں وفات پا گئی ہیں ان کی اولاد حیات ہے ،جس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ چھوٹی بیٹی کی وفات اکتوبر 2014 میں، جب کہ بڑی بیٹی کا انتقال مئی 2017 میں ہوا۔ چھوٹی بیٹی کے تین بیٹے اور ایک بیٹی حیات ہے جبکہ ان کے شوہر پہلے فوت ہوگئے تھے۔ بڑی بیٹی کے دو بیٹے اور ایک بیٹی حیات ہے جبکہ ان کے بھی شوہر پہلے فوت ہوچکے تھے۔ گزشتہ چند روز سے گھر کی وراثت کا معاملہ درپیش ہے۔ نا نا جی کے انتقال کے وقت سے گھر میں صرف دو بیٹے رہائش پذیر ہیں۔جس پر بہنوں کا یہ مطالبہ ہے کہ 1۔ جتنا عرصہ دونوں بھائی مکان میں رہائش پذیر رہے اس دورانیہ کا کرایہ حصوں کے مطابق ادا کریں۔ اور 2۔ مکان کو فروخت کیا جائے اور بہنوں کو ان کے حصے ادا کیے جائیں۔ کیا بہنوں کو یہ حق حاصل ہے یا نہیں؟ اس کے بارے میں اور وراثتی تقسیم کے بارے میں شرعی معلومات درکار ہیں۔ کیا یہ دونوں مطالبے شرعا جائز ہیں یا نہیں؟
سائل: عبد الرحمٰن
شاہد صدیق
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1.جتنی مدت گزر چکی، جس میں نانا جی کے بیٹے گھر میں رہتے رہے، اس عرصہ کے کرایہ کا مطالبہ کرنا درست نہیں۔ اگرچہ بیٹوں کے لیئے یہ جائز نہیں تھا کہ اپنی بہنوں کی رضامندی کے بغیر گھر میں ان کے حصے پر بھی رہائش رکھتے
شرح المجلہ(4/14) میں ہے:
الماده(1075): کل واحد من الشرکاء فى شرکة الملک أجنبى فى حصة الآخر، يعتبر صاحب ملک مخصوص على وجه الکمال فى السکنى و فى الأحوال التابعة لها کالدخول و الخروج… ثم اعلم أن احد الشريکين فى الدار إنما يحل له السکنى فى مقدار حصته فقط، کما سيأتى فى المادة(1081) و إن کان قضاء لا يلزمه أجر لو سکنى کلها باعتبار أنه مالک لکل الدار.
المادة(1083): المهاياة إنما تعتبر و تجري بعد الخصومة، فاذا سکن أحد الشريکين فى جميع الدار المشترکة مرة مستقلاً و لم يدفع أجرة حصة الآخر فلا يسوغ لشريکه أن يقول له: إما أن تدفع لي أجرة حصتى عن المدة و إما أن أسکن أنا بقدر ما سکنت، و إنما له القسمة إذا کانت الدار قابلة للقسمة (ص:22)
- اگر مکان اس قابل ہے کہ ہر حصہ دار کو اس کا حصہ الگ کرکے حوالے کیا جاسکے تو ایسا کیا جائے گا( پھر وہ حصہ دار چاہے اپنے حصہ میں خود رہے یا فروخت کر دے)۔ اگر مکان اس قابل نہ ہو تو ہر حصہ دار کو اس کے حصے کے بقدر رقم دینا ضروری ہے۔چاہے مکان فروخت کرکے ہو یا جو شریک مکان اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے وہ باقیوں کو اپنے پاس سے دے۔
مکان کی تقسیم اس طرح سے ہوگی کہ مکان کے کل 280حصے بنائے جائیں۔ جن میں سے70،70حصے ناناجی کے دونوں بیٹوں میں سے ہر ایک کو دیے جائیں اور 35،35 دونوں حیات بیٹیوں میں سے ہر ایک کو دیئے جائیں اور چھوٹی بیٹی کے ہر بیٹے کو 10،10 جبکہ ان کی بیٹی کو 5حصے دیے جائیں۔ بڑی بیٹی کے ہر بیٹے کو 14،14حصے جبکہ ان کی بیٹی کو 7حصے دیئے جائیں۔
صورت تقسیم یہ ہوگی:
مرحوم ناناجی 8×7=56×5=280
2بیٹے | 4بیٹیاں | |||||||
4 | 4 | |||||||
فی کس: | 2×7 | 2×7 | 1×7 | 1×7 | 1 | 1 | ||
14×5 | 14×5 | 7×5 | 7×5 | 7 | ||||
70 | 70 | 35 | 35 | |||||
چھوٹی بیٹی 7×5 = 35 مافی الید 1×7=7×5=35
3بیٹے | بیٹی | |||
فی کس: | 2×5 | 2×5 | 2×5 | 1×5 |
10 | 10 | 10 | 5 |
بڑی بیٹی 5×7=35 مافی الید 7×5=35
2بیٹے | بیٹی | ||
فی کس: | 2×7 | 2×7 | 1×7 |
14 | 14 | 7 |
الأحیاء: ناناجی کا بیٹا (۱) (۲) بیٹی (۱) (۲) چھوٹی بیٹی کا بیٹا (۱) (۲) (۳) بیٹی بڑی بیٹی کا بیٹا(۱)(۲) بیٹی
70 | 70 | 35 | 35 | 10 | 10 | 10 | 5 | 14 | 14 | 7 |
کل حصے:280
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved