- فتوی نمبر: 12-237
- تاریخ: 06 جولائی 2018
- عنوانات: عبادات > نماز > سترہ کے مسائل
استفتاء
ایک مسئلہ پوچھنا ہے کہ آج کل مساجد میں یا دفاتر میں جماعت کے بعد اگلی صفوں کے لوگ جب پیچھے نکلنا چاہتے ہیں تو پچھلی صفوں کے لوگوں (جو لوگ امام سے رہی رکعات پوری کررہے ہوتے ہیں یا سنتیں وغیرہ ادا کر رہے ہوتے ہیں ان )کےسامنے سے گزر جاتے ہیں ۔ تو (1)اس کا طریقہ کیا ہے اور (2)کتنے فاصلے سے نمازی کے سامنے سے گزرنے کی اجازت ہے؟ یا (3)اگر کوئی گزر رہا ہو تو اس کو ہاتھ کے اشارے سے روکا جاسکتا ہے ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1،2- جس مسجد یا دفتر کی لمبائی اور چوڑائی ہر ایک ساٹھ فٹ سے کم ہو اس مسجد یا دفتر میں سُترے کے بغیر کسی نمازی کے آگے سے گذرنا جائز نہیں اور جس مسجد یا دفتر کی لمبائی اور چوڑائی ساٹھ فٹ یا اس سے زیادہ ہو اس مسجد یا دفتر میں نمازی کے کھڑے ہونے کی جگہ سے دو صف چھوڑ کر گذرنا جائز ہے۔
3- جو شخص سترے کے بغیر مذکورہ فاصلہ چھوڑے بغیر نمازی کے آگے سے گذر رہا ہوتو اسے ہاتھ کے اشارے سے روکا جاسکتا ہے۔
در مختار مع رد المحتار(ج: 2، ص: 479) میں ہے:
“(ومرور مار في الصحراء أو في مسجد كبير بموضع سجوده) في الأصح (أو) مروره (بين يديه) إلى حائط القبلة (في) بيت و(مسجد) صغيرفإنه كبقعة واحدة…..
قوله (في الأصح)……. ومقابله ما صححه التمرتاشي وصاحب البدائع واختاره فخر الإسلام ورجحه في النهاية والفتح أنه قدر ما يقع بصره على المار لو صلى بخشوع أي: راميا ببصره إلى موضع سجوده……. قوله: (إلى حائط القبلة) أي: من موضع قدميه إلى الحائط إن لم يكن له سترة فلو كانت لا يضر المرور وراءها على ما يأتي بيانه قوله: (في بيت) ظاهره ولو كبيرا وفي القهستاني: وينبغي أن يدخل فيه أي: في حكم المسجد الصغير الدار والبيت. [وقال الرافعي: لكن ينبغي تقييده بالصغير كما تقدم في الإمامة تقييد الدار بالصغيرة حيث لم يجعل قدر الصفين مانعا من الإقتداء بخلاف الكبيرة] قوله: (ومسجد صغير) هو أقل من ستين ذراعا وقيل في أربعين وهو المختار كما أشار إليه في الجواهر. قهستاني.قوله: (كبقعة واحدة) أي: من حيث أنه لم يجعل الفاصل فيه بقدر صفين مانعا من الإقتداء تنزيلا له منزلة مكان واحد بخلاف المسجد الكبير فإنه جعل فيه مانعا…….
ویدفعه هو رخصة فتركه أفضل بدائع. ….. (بتسبيح) أو جهر بقراءة (أو إشارة) ولا يزاد عليها عندنا. قهستاني (لا بهما) فإنه يكره….”
© Copyright 2024, All Rights Reserved