- فتوی نمبر: 14-86
- تاریخ: 07 مئی 2019
- عنوانات: عبادات > حج و عمرہ کا بیان
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اندھا آدمی اگر صاحب استطاعت ہو تو اس پر حج فرض ہے یانہیں؟فتوی کس کے قول پر ہے امام اعظم ابوحنیفہؒ یا صاحبینؒ کے قول پر؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
نابینا شخص پرحج فرض ہونے یا نہ ہونے میں مندرجہ ذیل تفصیل ہے:
(۱)نابیناشخص اگر پہلے بینا تھا اور بینا ہونے کی حالت میں صاحب استطاعت تھا اور حج نہیں کیا تھاپھر نابینا ہو گیا تو اس پر حج کرنا یاحج کروانا یا اس کی وصیت کرنابالاتفاق فرض ہے ۔
(۲)اور اگر وہ شروع سے نابینا تھا یا بینا ہوتے ہوئے استطاعت نہیں رکھتا تھا نابینا ہونے کے بعد صاحب استطاعت ہوا تو اس پر خود حج کرنابالاتفاق فرض نہیں،اگر چہ اس کو ساتھ لے جانے والا کوئی شخص بھی موجود ہو ۔لیکن کیا ایسے نابیناشخص پر حج کروانا یااس کی وصیت کرنافرض ہو گا یا نہیں ؟اس میں امام صاحب اور صاحبینؒ کے کااختلاف ہے ۔امام صاحب کے نزدیک اس پرحج کروانا یا اس کی وصیت کرنابھی فرض نہیں ،کیونکہ امام صاحب ؒکے نزدیک بینائی حج کے وجوب کی شرطوں میں سے ہے ،جب حج واجب ہی نہیں ہوا تو کرانا بھی واجب نہیں ہوگا۔اور صاحبینؒ کے نزدیک ایسے نابیناپر حج کروانایا اس کی وصیت کرنا فرض ہے ،کیونکہ بینائی صاحبینؒ کے نزدیک وجوب حج کی شرائط میں سے نہیں بلکہ وجوب اداء کے لیے شرط ہے ۔پس نفس وجوب تو پایا گیا اور ادائیگی کرنے سے عاجز ہے، لہذا اس کے ذمے ہو گا کہ حج بدل کروادے ای اس کی وصیت کرجائے اور جب اس کی طرف سے حج کرلیا گیا تواس کے ذمے سے حج کا فرض ساقط ہو جائے گا۔بشرطیکہ موت تک نابینا ہی رہا اوراگر یہ عذر ساقط ہو گیا تو اس کے ذمے حج کرنا ہو گا اورحج بدل جو کروایا ہے وہ نفل ہوجائے گا۔ امام اعظم ؒاور صاحبینؒمیں سے کس کے قول کو ترجیح حاصل ہے اس میں عبارات مختلف ہیں ۔صاحب تحفہ نے صرف صاحبین کے قول کو ذکر کیا ہے۔اسبیجابی نے بھی انہی کے قول کو ترجیح دی ہے ۔فتح القدیر میں بھی صحت کو شرائط وجوب اداء میں سے کہا ہے اور صاحبین کے قول کو ترجیح دی ہے ۔(بحر،نھر)
في البحر546/2
ومحل الخلاف فيما اذا لم يقدرعلي الحج وهو صحيح اما ان قدر عليه وهو صحيح ثم زالت القيمة قبل ان يخرج الي الحج فانه يتقرر دينا في ذمته فيجب عليه الاحجاج اتفاقا
في الشامي524/3
وظاهر التحفة اختيار قولهما وکذا الاسبيجابي وقواه في الفتح ومشي علي ان الصحة من شرائط وجوب الاداء (بحر ونهر)وحکي في اللباب اختلاف التصحيح وفي شرحه انه مشي علي الاول في النهاية وقال في البحر العميق انه المذهب الصحيح وان الثاني صححه قاضيخان في شرح الجامع واختاره کثير من المشائخ ومنهم ابن الهمام ۔
معلم الحجاج (82)میں دونوں قولوں کو ذکرکیا ہے ،صاحبین کے قول کو پہلے بھی ذکر کیا ہے اور اس کے ساتھ اس کی تصحیح بھی مذکور ہے جبکہ امام صاحب ؒ کے قول کے ساتھ تصحیح کو ذکر نہیں کیا ۔
ہماری رائے میں بھی صاحبین ؒ کے قول کو ترجیح ہے کیونکہ اس میں احتیاط بھی ہے البتہ اگر ایسی صورت حال درپیش ہو کہ جس وقت استطاعت تھی اس وقت اس مسئلے کی طرف توجہ نہیں ہوئی اور جب توجہ ہوئی تو استطاعت نہیں رہی تو ایسی صورت میں امام صاحب ؒ کے قول پر عمل کیا جاسکتا ہے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved