- فتوی نمبر: 21-121
- تاریخ: 10 مئی 2024
- عنوانات: حظر و اباحت > عملیات، تعویذات اور جادو و جنات
استفتاء
کیا صدقے کی نیت سے بکرے کو اللہ کے نام پر ذبح کرنا بدعت ہے؟
جب کہ ایک مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ بکرے کا ذبیحہ صرف عید الاضحی ،منٰی یا عقیقہ میں کیا جا سکتا ہے، اس کے علاوہ ذبح کرنا صدقے کی نیت سے بدعت ہے۔کیا یہ صاحب صحیح فرما رہے ہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
صدقے کے لیے بکرے کو ذبح کرنا شرعاً ضروری نہیں، بغیر ذبح کیے ہوئے بھی سالم بکرا صدقے میں دے سکتے ہیں اور ایسا کرنے سے صدقے کے ثواب میں اور اس کے اثرات میں کچھ فرق نہیں پڑتا،لہذا اگر کوئی شخص صدقےکے لئے ذبح کرنے کو ضروری سمجھے یا اس کو ثواب کی چیز سمجھے یاذبح کرنے کو صدقے کے اثرات میں مزید موثر سمجھے تویہ سب باتیں خلاف شرع ہیں اور بدعت ہیں تاہم اگر کوئی شخص صرف اس وجہ سے صدقے کے بکرے کو ذبح کرتا ہے تاکہ اس کا گوشت مختلف لوگوں میں تقسیم کیا جا سکے (کیونکہ زندہ بکراصدقہ کرنے کی صورت میں بکراعموماً صرف کسی ایک شخص کو دیا جا سکتا ہے) یا بعض لوگ یہ چاہتے ہیں کہ مدرسے کے طلباء گوشت استعمال کریں اور زندہ بکرا دینے کی صورت میں انہیں یہ خدشہ ہوتا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ مدرسےوالے مدرسے کی دیگر اہم ضروریات کے پیش نظر یہ بکرافروخت کردیں تو وہ اس لئے صدقے کےبکرے کوذبح کرکے دیتے ہیں یا اپنے سامنے ذبح کرواتے ہیں تو ایسی صورت میں صدقے کے بکرےکو ذبح کرنا بھی درست ہے۔
امداد الفتاوی جلد نمبر 5 صفحہ 312 میں ہے:
السوال:زیدسخت بیمار ہوا اس وقت اس کے خویش و اقارب نے ایک بکرالاکر زید کی جانب سے ذبح کر کے اس کا گوشت للہ فقراء کو تصدق کر دیا اور یہ عام رواج ہوگیا ہے اور اس طریقے کو دم نام رکھا ہے۔ آیا یہ طریقہ شرعاً کیسا ہے ؟اس کا ثبوت کہیں ہے یا نہیں؟
الجواب :چونکہ مقصودفدا ہوتا ہے اور ذبح کی یہ غرض صرف عقیقے میں ثابت ہے اورجگہ نہیں،اس لیے یہ طریقہ بدعت ہے۔
امداد الفتاوی جلد نمبر 3 صفحہ 571 میں ہے:
الجواب:اگر بلا نذر بطور شکر کے ذبح کرے اس میں دوصورتیں ہیں ایک یہ ہے کہ خود ذبح مقصودنہیں بلکہ مقصود اعطاءیا اطعام مساکین ہےاور ذبح محض اس کا ذریعہ ہے سہولت کے لئے اور علامت اس تصدق کے مقصودہونےاور ذبح کےمقصود نہ ہونے کی یہ ہے کہ اگر اتنا ہی اور ویسا ہی گوشت کسی دکان سے مل جاوے تو انشراح خاطر سے اس پر اکتفا کرے،ذبح کا اہتمام نہ کرے تب تو یہ ذبح جائز ہے اور دوسری صورت یہ ہے کہ خود ذبح ہی مقصود ہو اور ذبح ہی کو بخصوصہ طریقہ شکروقربت سمجھے سو قواعد سے یہ درست معلوم نہیں ہوتالما ان الاراقة في غير محال واردة لم يعرف قربة وهذا لم يرد فيه نقل کما قدعلمت في تقرير الايراد والجواب عنه اور یہاں تک جواب ہوگیا اجزائے سوال کا اوراس سے ایک صورت کا حکم بھی معلوم ہوگیا جس سے استفتاء میں تو تعرض نہیں کیاگیامگرسائل کے خط میں اس کابھی ذکرہے اس عبارت سے کہ جہاں کوئی ایسی ویسی بات پیش آئی اوربھیڑیابکری ذبح کرکے صدقہ کردیا ،محض اللہ کے نام پر الخ اوراس عبارت کےبعد کسی عالم کا جن کی تعیین نہیں کی ،قول بھی نقل کیا کہ یہ فیل قطعا ناجائز ہے۔اسی طرح خصوصیت کے ساتھ اکثر عوام بلکہ ممتاز لوگوں میں یہ رسم ہے کہ مریض کی طرف سے جانور ذبح کرتے ہیں یا وباء وغیرہ کے دفع کے لئے ایسا ہی کرتے ہیں سوچ کے قرائن کو یاد سے ان مواقع پر بھی معلوم ہوتا ہے کہ خود ذبح ہی مقصود ہے اور اسی کو مؤثر فی دفع البلاء خصوصی مرض کی حالت میں اس ذبیحہ کو من حیث الذبح فدیہ سمجھتے ہیں سو اس کا حکم بھی قواعد سے عدم جواز معلوم ہوتا ہے۔
لما مرمن قوله ان الاراقة في غير محال وارادة الخ ولايقاس علي العقيقة لانه غير معقول فلايتعدي
بلکہ اعتقاد مؤثریت یا فدایت کی حالت میں تو نذر بھی صحیح نہیں معلوم ہوتی۔
لانه اعتقاد من غير دليل فيکون العمل معه بدعة وبالبدعة لاينعقد النذر
البتہ اگر یہاں بھی ذبح مقصود نہ ہو محض اعطاءاور اطعام مقصود ہو جس کی علامت اوپر مذکور ہو چکی تب جائز ہے۔
لکنه بعيد من حال عوام الناس فالاحوط منعهم مطلقا من مثل هذا……
کفایت المفتی 8/251میں ہے:
(سوال ) (۱) مریض کی صحت کی نیت سے کوئی جانور ذبح کرکے صدقہ کیا جاوے تاکہ رب العزت مریض کو شفا عطا فرمائے تو یہ جانور ذبح کرنا درست ہے یا نہیں ؟(۲) جانور اس نیت سے ذبح کیا جائے کہ جان کا بدلہ جان ہوجائے جانور کی جان چلی جائے اور انسان کی جان بچ جائے یعنی خدا وند تعالیٰ جانور کی جان قبول فرماکر بندہ کی جان نہ لیں درست ہے یا نہیں ؟ (۳) جانور اس نیت سے پالا جائے کہ نبی کریم ﷺ کی طرف سے اس کو قربان کیا جائے گا اور اس کو مشہورکیا جائے کہ یہ جانور نبی کریمﷺ کی قربانی کا ہے درست ہے یا نہیں ؟(۴) جانور اس نیت سے پالا جائے کہ کسی بزرگ یا ولی کی نیا ز دلائی جاوے گی یعنی اس جانور کو ذبح کرکے اس کا ثواب اس ولی یا بزرگ کو پہنچایا جائے گا درست ہے یا نہیں ؟ المستفتی نمبر ۲۴۹۳ عبدالحق ( گوڑگانوہ ) ۲۰ ربیع الاول ۱۳۵۸ھ ۱۱ مئی ۱۹۳۹ء
(جواب ۳۳۷) (۱) زندہ جانور صدقہ کردینا زیادہ بہتر ہے (۱) شفائے مریض کی غرض سے ذبح کرنا اگر محض لوجہ اللہ ہو تو مباح تو ہے لیکن اصل مقصد بالا راقتہ صدقہ ہونا چاہئیے نہ کہ فدیہ جان بجان ۔(۲) یہ خیال تو بے اصل ہے اباحت صرف اس خیال سے ہے کہ اللہ کے واسطے جان کی قربانی دی جائے اور یہ خیال کیا جائے کہ جیسے صدقہ مالیہ اللہ کی رحمت کو متوجہ کرتا ہے اسی طرح یہ قربا نی جالب رحمت ہوجائے اور اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے مریض کو شفا عطا فرمائے۔ (۲)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved