• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر

اولاد کا نفقہ میراث میں سے ہوگا

استفتاء

تمہید عرض ہے بندہ ناچیز کا جوان سال بیٹا جو کہ سرکاری ہسپتال میں  MBBS ڈاکٹر تھا 1999ء میں فوت ہوگیا ۔ پسمانندگان میں بیوہ اور ایک بچہ بعمر8 سال اور ایک بچی بعمر 11سال چھوڑے۔چند ماہ بعد بیوہ اپنے والدین کے ہاں چلی گئی بچوں سمیت اور پھر شادی کرلی جبکہ ہمیں نہ بتایا نہ بلایا۔ اس شادی  سے اس کی ایک بچی پیداہوئی اور قریباً 2سال بعد خاوند نے اسے طلاق دیدی۔  تب سے وہ بچوں کو ہمراہ  والدین کے ساتھ قیام پذیر وہ خود ایم اے  ہے اورایک ہائی سکول میں معقول تنخواہ پر  Job  کررہی ہے ۔بچوں کے نانا ونانی دونوں ڈینٹیل ڈاکٹر ہیں اور مالی لحاظ سے خوشحال ہیں۔ اس وقت میرے پوتا/ پوتی جوان ہوچکے ہیں  لڑکے  نے دسویں کا امتحان دیا ہے جبکہ بچی کالج میں سال اول  میں ہے۔

اس دوران بندہ نے کئی مرتبہ بچوں کو  ملنے اور  انکی مالی امداد کرنے کی کوشش کی مگر والدہ  نے  نہ امداد لی نہ ملنے دیا تاہم بعض اہل علم کے مشورہ پر میں بچوں کی کفالت ومالی امداد کے لیے ان  کی والدہ  کے بنک اکاؤنٹ میں معقول رقم جمع کراتا رہا اور ان کی والدہ کو مطلع بھی کئے رکھا۔ میرے فوت شدہ ڈاکٹر بیٹے کی پنشن ودیگر مراعات بھی بچوں کی والدہ وصول کرتی  رہی ہے۔

اس تمہید کے پس منظر میں بطور سائل یہ شرعی مسئلہ معلوم کرنا  چاہتا ہوں کہ مجھے  ان حالات میں شرعی طور  یا کیا کرنا چاہیے۔ آیا بچوں کی  امداد وکفالت کے سلسلے میں کیا شرعی طور پر  میرے ذمے کچھ کرنا ہے یا نہیں؟ اگر وہ لوگ امداد قبول نہ کریں تو کیا یہ بنک کے ذریعے کفالت کا سلسلہ مجھے جاری رکھنا چاہیے ؟ نیز یہ کہ بچوں کی یہ کفالت وغیرہ ان کی  کس عمر تک میرے ذمہ  ہوگی؟

میں خود ریٹائرڈ پروفیسر ہوں اور اس وقت میری پنشن قریباً 15ہزار روپے ماہوار ہے ۔ میرے دوجوان بیٹے ہیں جو کالج میں زیر تعلیم ہیں۔ تھوڑی سی زمین میرے نام ہے(مکان وغیرہ نہیں) جو مدت سے بنجر پڑی ہے۔ کیا اس زمین  میں بھی پوتے / پوتی  کا کوئی حصہ ہوگا؟ مقصد یہ کہ  میں اس الجھن میں  ٹھیک مسئلہ معلوم کرکے عنداللہ سرخرو ہونا چاہتاہوں۔ کہیں کسی جرم میں پکڑا نہ جاؤں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں پوتے کا  نفقہ دادا  پر واجب نہیں اور پوتی کا نفقہ بھی مذکورہ صورت میں دادا پر واجب نہیں ۔ بلکہ مرحوم والد کی میراث سے جو حصہ ہے اس میں سے اس کا خرچ واجب ہوگا۔

وإن كان الأب قد مات وترك أموالاً وترك أولاداًصغاراً كانت نفقة الأولاد من انصبائهم وكذا كل من يكون وارثا فنفقته في نصيبه ۔(عالمگیری ص 564ج1)فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved