• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر

باپ دادا کی غیر موجودگی میں بچوں کے نفقہ کی ذمہ داری اور والدہ کےشادی کے بعد پرورش کا حق

استفتاء

میری ہمشیرہ کی شادی خالہ کے بیٹے کے ساتھ ہوئی۔ ہمشیرہ کا خاوند قتل ہوگیا۔ اس کےتین بچے ہیں۔ دو لڑکے اور ایک لڑکی۔ خاوند کی وفات کے بعد ہمشیرہ اپنے سسرال میں نباہ نہ کرسکی۔ میں اپنی ہمشیرہ کو بچوں سمیت اپنے والدین کے گھر لے آیا۔ میری خالہ نے یہ شرط رکھی کہ وہ دوسری جگہ شادی نہ کرے تو بچے اس کے پاس رہیں گے۔ اگر وہ دوسری جگہ شادی کرتی ہے تو بچے واپس لے لیں گے۔ ہمشیرہ نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ اسٹام پیپر پر لکھ کر دے دیں اور بچوں کے سارے چچا اس پر دستخط کر دیں مگر انہوں نے لکھ  کر دینے سے انکار کیا اور بچوں کی کفالت کا خرچہ بھی نہیں دیا۔ بچے جائیداد میں وارث بھی نہیں ہیں کیونکہ والد کا قتل دادا کی زندگی میں ہوا۔ اور دادا بعد میں فوت ہوئے۔ انہوں نے بچوں کے نام کوئی وصیت نہیں کی۔ اب اس سلسلے میں آپ کی راہنمائی درکار ہے۔ برائے مہربانی قران وسنت کی روشنی میں میرے ان سوالوں کے جواب مرحمت فرمائیں بندہ آپ کا شکر گذار ہوگا۔

1۔ کیا ہمشیرہ بچوں کی کفالت کے خرچہ کا مطالبہ کرسکتی ہے ؟ اگر کرسکتی ہے تو وہ کس قدر ہوگا جبکہ خالہ کا کہنا ہے کہ وہ خود گئی ہے، ہم نے نہیں بھیجا، اس لیے ہم خرچہ نہیں دیں گے حالانکہ ڈیڑھ سال تک ہمشیرہ ان کے پاس رہی مگر انہوں نے خرچہ بالکل نہیں دیا اور ہمشیرہ کے پاس چالیس ہزار روپے ہیں جو اس نے کسی کو قرض دیے ہوئے ہیں جن کے ملنے کی امید ہے۔

2۔ اگر ہمشیرہ دوسری جگہ شادی کرتی ہے اور اس کا دوسرا خاوند بچی کو اپنے پاس رکھنے پر راضی ہو تو کیا بچی ان کے پاس رہ سکتی ہے اور کب تک رہ سکتی ہے؟ اور اگر بچی کی دادی اور چچا اس پر اعتراض کریں تو بچی کی کفالت کس کے ذمہ ہوگی؟ ( نانی، ماموں، یا دادی، چچا وغیرہ)

3۔ ہمشیرہ کا کہنا ہے کہ میر حق مہر جو نکاح نامہ میں ایک عدد کمرہ نسٹر والا بمعہ دس مرلہ جگہ ہے وہ میرے نام کریں اگر وہ حق مہر ادا کریں گے تو میں بچے ان کو دوں گی ورنہ نہیں دوں گی۔ یہ مطالبہ درست ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ مذکورہ صورت میں بچوں کا خرچہ ایک تہائی بچوں کی والدہ پر واجب ہے اور دو تہائی بچوں کے چچوں پر واجب ہے۔ دادی پر واجب نہیں۔ لہذا والدہ دو تہائی کا مطالبہ چچوں سے کرسکتی ہے۔ دادی سے نہیں۔

و لو كان له أم و جد فإن نفقته عليهما أثلاثاً على قدر مواريثهما الثلث على الأم و الثلثان على الجد و كذلك إذا كان له أم و أخ لأب و أم أو ابن أخ لأب و أم أو عم لأب و أم أو واحد من العصبة فإن النفقة عليهما أثلاثاً على قدر مواريثهما. ( عالمگیری: 1/  566)

نیز شامی میں ہے:

القسم الخامس: الأصول فقط فإن كان معأم أب فالنفقة عليه فقط لقول المتون لا يشارك الأب في نفقة والده أحد و إلا فإما أن يكون بعضهم وارثاً و بعضهم غير وارث أو كلهم واريثين ففي الأول يعتبر الأقرب جزئية لما في القنية له أم و جد لأم فعلى الأم: لقربها و يظهر منه أن أم الأب كأبي الأم. ( 5/ 364)

2۔ ہمشیرہ بچی کے محرم رشتہ دار کے ساتھ نکاح کرے تو پرورش کا حق ہمشیرہ کے لیے باقی رہے گا اور غیر محرم کے ساتھ نکاح کرنے کی صورت میں یہ حق ہمشیرہ سے ساقط ہو کر نانی کے پاس چلا جائے گا۔

قال في الدر ( ثم) أي بعد الأم بأن ماتت أو لم تقبل أو اسقطت حقها أو تزوجت باجنبي ( أم الأم). ( در المختار: 5/ 269)

3۔ اس سوال کے لیے سائل خود آکر ملے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved