• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بہنوں کے بھائیوں کے حق میں میراث سے دستبردار ہونا

استفتاء

گذارش ہے کہ ہمارے والد محترم 3 فروری 1998ء کو وفات پاگئے تھے۔ ان کی ایک جائیداد جس کی اس وقت کی مالیت تقریباً 50 لاکھ روپے تھی وہ ہم تین بھائی اور چار بہنوں کی اور والدہ محترمہ کی مشترکہ جائیداد تھی۔ والدہ نے اپنی زندگی میں ساری ذمہ داریاں مثلاً بہنوں کی شادی اور دیگر معاملات دکان میں سے کروائے۔ والدہ نے اپنی چار شادی شدہ بیٹیوں کو اپنی زندگی میں ہی کہا ’’کہ میں چاہتی ہوں یہ جائیداد تم اپنے تینوں بھائیوں کے نام کر دو‘‘ کیونکہ ہم بھائی شادیاں کرنے کی وجہ سے کافی مقروض بھی ہو گئے تھے، بہنوں نے نہایت خوشی اور اپنے خاوندوں کی اجازت سے خوش اسلوبی کے ساتھ عدالت میں جناب غلام مصطفیٰ صاحب جج کے سامنے حاضر ہو کر بھائیوں کے حق میں جائیداد کر دی، عدالت کے حکم کی کاپی ہم ساتھ منسلک کر رہے ہیں۔

ہم آپ سے اسلام کی رُو سے تحریری طور پر یہ معلوم  کرنا چاہتے ہیں کہ یہ جائیداد شرعی طور پر جیسے قانونی طور پر ہم بھائیوں کے نام منتقل ہو گئی ویسے شرعی طور پر بھی ہمارے نام منتقل ہو گئی ہے؟

وضاحت مطلوب ہے:

کیا والد کے ترکہ میں سے دکان کے علاوہ دوسری چیزوں میں سے کچھ بہنوں کو دیا گیا مثلاً بینک بیلنس، گاڑی، کاروبار وغیرہ۔

جواب وضاحت:

والد صاحب کے ترکہ میں دکان کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

وضاحت مطلوب ہے:

کہ والد صاحب کی ملکیت میں خالی دکان ہی تھی یا دکان میں موجود سامان بھی والد کی ملکیت میں تھا؟

جواب وضاحت:

دکان میں سارا سامان ادھار لیا ہوا تھا جو والد صاحب فروخت کر کے پیسے دیتے تھے۔ اس کے علاوہ ان پر قرض بھی تھا جو کہ ادھار لیے ہوئے سامان کو بیچ کر حاصل ہونے والے نفع سے ادا کیے جاتے تھے۔ اب حال میں دو ماہ قبل کاروبار ختم کر  کے دکان کرایہ پر چڑھا دی گئی ہے۔

مزید وضاحت:

ایک بیٹی کی شادی والد صاحب نے کی تھی۔ باقی تمام بہن بھائیوں کی شادی بعد میں ہوئی البتہ بہنوں کی شادی میں ڈبل خرچہ ہوا ہے اور انہیں بھر پور جہیز دیا گیا ہے ۔

مزید وضاحت:

1۔ دکان ڈھائی مرلے کی ہے اور اس مارکیٹ میں چھوٹی دکانیں نہیں ہوتیں اس لیے اسے تقسیم بھی نہیں کیا جا سکتا۔

2۔ عدالتی کاروائی میں اگرچہ لکھا ہے :

The plaintiffs have jointly compensated the defendants No.1 to 4 by giving their respective shares through compensation and through dowry and otherwise.

لیکن بہنوں کو جہیز کے علاوہ اور چیز نہیں دی گئی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

شریعت کے نزدیک کوئی شخص اپنی ملکیتی چیز پر سے شرعی شرائط کے ساتھ دوسرے کو منتقل کیے بغیر اپنی ملکیت ختم نہیں کر سکتا۔ والد صاحب کی وفات کے بعد دکان اور اس میں موجود سارا سامان تمام ورثاء کی ملکیت ہو گیا تھا۔لہذا والد کی وفات کے بعد جن بہنوں کی شادی ہوئی اور انہوں نے جہیز کی شکل میں جو کچھ وصول کیا اور اسے اپنا مکمل حصہ قرار دے لیا تو ان کا یہ عمل درست ہے۔ جبکہ جس بہن کی شادی والد کی زندگی میں ہوئی تھی اس نے والد کے ترکہ میں سے کچھ وصول نہیں کیا۔ لہذا اگر وہ بھائیوں کو اپنا حصہ دینا چاہتی ہے تو بھائیوں کو زبان سے کہہ کر گفٹ کر دے۔

فتاویٰ ہندیہ (4/378) میں ہے:

هبة المشاع فيما لا يحتمل القسمة تجوز من الشريك و في الأجنبي كذا في الفصول العمادية.

و يشترط في صحة هبة المشاع الذي لا يحتمل القسمة أن يكون قدراً معلوماً.فقط و الله تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved