• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر

بیٹے کےلیے عمرہ کےپیسے دے کراس سے عمرہ کرنے کی وصیت کرنا

استفتاء

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

علماء کرائے اس مسئلہ کے بارے میں  کیا فرماتے ہیں  کہ والدہ محترمہ نے کمیٹی ڈالی اور اپنی صحت کی حالت میں  یعنی کمیٹی ڈالنے سے پہلے ہی کہا کہ ’’کمیٹی کے پیسوں  کا میری طرف سے عمرہ کرنا ہے، چاہے کہ اب جا، یا میری زندگی کے بعد، یہ پیسے کسی اور کام میں  بھی نہیں  لگانے سوائے عمرہ کے، اور جانا بھی تو نے ہی ہے کسی اور نے نہیں ۔‘‘ اور میں  نے عہد کیا کہ میں  ہی جاؤں  گا۔

اب ان کی وفات کے بعد میں  ان کی طرف سے عمرہ کرنے ان کے ہی پیسوں  سے جاؤں  یا خود سے خرچ کر کے جاؤں ، اور انہوں  نے وصیت نامہ میں  اپنی ہر ہر چیز کا ذکر کیا یہ چیز اس کی ہے اور یہ فلاں  کو دینی ہے مگر ان پیسوں  کا ذکر وصیت نامہ میں  نہیں  کیا، اور وہ کہتی تھیں  کہ کسی کو پتہ بھی نہ چلے کہ میں  نے کمیٹی ڈالی ہے تاکہ تم میری طرف سے عمرہ پر جا سکو۔

سوال یہ ہے کہ کیا ان پیسوں  پر میراث کے احکام جاری ہوں  گے یا وہ پیسے میرے لیے ہدیہ اور ہبہ ہیں ؟ اور کیا میرے لیے عمرہ کرنا ضروری ہے؟

تنبیہ:

والدہ نے زندگی میں  یہ بھی کہا تھا کہ یہ کمیٹی والے پیسے جب کمیٹی نکلے گی آپ کے ہی ہیں ، اس بات کا دوسرے بھائیوں  کو علم نہیں  ہے۔

نوٹ: کل کمیٹیاں  20 طے تھیں ، بارہ کمیٹیوں  کے بعد والدہ فوت ہو گئیں ، بعد کی کمیٹیاں  میں  اپنی گرہ سے ادا کر رہا ہوں ، 18 ہو گئی ہیں  دو باقی ہیں ۔

ان میں  سے بارہ کمیٹیوں  تک ادائیگی کی ترتیب یہ تھی کہ چار ہزار والدہ دیتی تھیں  اور دو ہزار میں  دیتا تھا۔

ایک کمیٹی جون میں  یعنی چھٹے مہینے میں  نکل گئی تھی، وہ والدہ نے اپنی زندگی میں  مجھے دیدی۔ جبکہ دوسری کمیٹی ابھی وفات کے بعد نکلی ہے اور قسطیں  دونوں  کمیٹیوں  کی تاحال چل رہی ہیں ۔ اگست میں  پوری ہو جائیں  گی۔

والدہ کی ملکیت میں  بوقت وفات ان کمیٹیوں  کے علاوہ ہمارے والد صاحب کے متروکہ مکان میں  سے والدہ کا آٹھواں  حصہ ہے، کمیٹیوں  کا پیسہ اس حصے کے ایک تہائی سے بہت کم ہے۔

وصیت میں  مکان کے حصے یا کمیٹیوں  کی بابت کوئی بات نہیں  تھی۔ البتہ اپنی استعمالی اشیاء مثلاً موبائل، قرآن پاک، بستر، برتن وغیرہ کے بارے میں  تھا کہ یہ فلاں  فلاں  کو دے دینا۔ اور یہ چیزیں  ان کی وصیت کے مطابق دیدی گئی ہیں ۔ بلکہ میں  نے اپنے لیے وصیت کردہ اشیاء بھی دوسرے بھائیوں  کو دیدی ہیں ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت وصیت کی ہے اور والدہ کا یہ کہنا کہ ’’چاہے اب جا، یا میری زندگی کے بعد‘‘ کا مطلب بظاہر یہ ہے کہ اگر میری زندگی میں  نہ جا سکے تو میری وفات کے بعد ان پیسوں  سے میری طرف سے عمرہ کرنا۔ لہذا یہ پیسے نہ تو میراث میں  شامل ہوں  گے اور نہ ہی آپ کے لیے ہبہ ہیں  بلکہ آپ کو چاہیے کہ آپ اپنی والدہ کی وصیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان پیسوں  سے عمرہ کریں  اور اس عمرے کا اپنی والدہ کو ایصال ثواب کریں ۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved