• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

بوڑھے والدین کی خدمت کرنا واجب ہے یا نہیں؟

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کہ بارے میں کہ والدین دونوں یا ان میں سے کوئی ایک بوڑھا ہو جائے یا ان کو کسی مستقل بیماری کا عارضہ لاحق ہو جائے کہ جس کی وجہ سے انہیں مستقل خدمت کی ضرورت ہو تو ایسی صورت میں اولاد پر بالخصوص لڑکوں پر کیا اپنے والدین کی جسمانی خدمت کرنا شرعا واجب ہے یا صرف مستحب ہے ؟جسمانی خدمت سے مراد انہیں اٹھانا ،بٹھانا ،ہاتھ پائوں کمر وغیرہ دبانا مسجد لے جانا وضوء استنجے میں ان کی مدد کرنا یا ان کی وحشت دور کرنے کے لیے ان کے پاس رہنا وغیرہ وغیرہ ۔نیز اگر جسمانی خدمت واجب ہو تو کیا اس کے لیے خود خدمت کرنا واجب ہے یا اس خدمت کے لیے اگر اولاد کوئی مناسب ملازم رکھ لے تو یہ بھی کافی ہے ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگر والدین کو جسمانی خدمت کی احتیاج ہو تو اولاد پر ان کی جسمانی خدمت کرنا واجب ہے خواہ اولاد یہ خدمت خود کرے یاجس خدمت کے لیے کسی ملازم کے رکھنے سے کام چل جا ئے اس کے لیے کوئی مناسب ملازم /ملازمہ رکھے ۔

احتیاج کا مطلب یہ ہے کہ نہ تو والدین کو اتنی مالی وسعت ہو کہ وہ اپنی خدمت کے لیے کسی کو ملازم رکھیں نہ تبرعاکوئی خدمت کے لیے تیار ہو اور اگر تیار بھی ہو تو والدین اس سے خدمت لینے میں جھجک محسوس کرتے ہوں اور نہ والدہ(بیوی) والد(شوہر) کی خدمت کرسکتی ہواور نہ والد(شوہر) والدہ(بیوی) کی خدمت کا کوئی نظم بناسکتا ہو۔

نیز اولاد پر یہ خدمت صرف اس حدتک واجب ہے کہ اس کی وجہ سے اولاد کے اپنے یا اپنے بیوی بچوں کے حقوق واجبہ متأثر نہ ہوں ۔یا بالکل نظر انداز نہ ہوجائیں ۔

۱۔ بدائع الصنائع (43/4)میں ہے:

ومنها ان لايکون العمل المستأجر له فرضا ولا واجبا علي الأجير قبل الاجارةفان کان فرضا او واجبا عليه قبل الاجارة لم تصح الاجارة لأن من اتي بعمل يستحق عليه لايستحق الاجرة ۔۔۔۔۔وعلي هذا يخرج مااذا استأجر الرجل ابنه وهو حر بالغ ليخدمه انه لايجوز لان خدمة الأب الحر واجبة علي الابن الحر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(فصل في انواع شرائط رکن الاجارة)

۲۔ فتاوي شامي (329/5):

ولو ابوها زمنا وفي الشامية، قوله :(زمنا)اي مريضا مرضا طويلا فعليها تعاهده ولو کافرا وان أبي الزوج ۔وفي الشاميه قوله:(فعليها تعاهده)اي بقدر احتياجه اليها وهذا اذا لم يکن له من يقوم عليه کما قيده في الخانية قوله (ولوکافرا)لان ذلک من المصاحبة بالمعروف المأمور بها قوله(ولو أبي الزوج )لرجحان حق الوالد ۔

۳۔ درمختار (350/4):

ولو له اب وطفل فالطفل احق به وقيل يقسمها فيهما۔

۴۔        فتاوي شامي (229/4):

’’لان موضوع الزوجية ان تکون هي خادمة له لا بالعکس فانه حرام لما فيه من الاهانة والاذلال کما ياتي۔۔۔(229/4)

۵۔ ويعلم منه انها اذا مرضت وجب عليه اخدامها ولو کانت امة وبه صرح الشافعية وهو مقتضي قواعدمذهبنا ولم اره صريحا وان علم من کلامهم ۔۔۔وبهذا علم انه اذا لم يکن لها خادم مملوک لايلزمه کراء غلام يخدمها لکن يلزمه ان يشتري لها ما تحتاجه من السوق ۔۔۔۔ الا ان يقال هذا في غير المريضة لانه اذا اشتري لها ماتحتاجه تستغني عنه بخلاف المريضة اذا لم تجد من يمرضها فيکون من تمام الکفاية الواجبة علي الزوج۔۔۔(307/4)

۶۔ في الدر:

امتنعت المرأة من الطحن والخبز ان کانت ممن لاتخدم او کان بها علة فعليه ان يأتيها بطعام مهيأ (وفي الدر: او يأتيها بمن يکفيها عمل الطبخ والخبز ۔هندية)والا بأن کانت ممن تخدم نفسها وتقدر علي ذلک لايجب عليه (وفي الرد:وفي بعض المواضع تجبر علي ذلک)ولايجوز لها اخذ الاجرة علي ذلک لوجوبه عليها ديانة ولو شريفة لانه عليه الصلوة والسلام قسم الاعمال بين عليؓ وفاطمةؓفجعل اعمال الخارج علي عليؓ والداخلة علي فاطمةؓمع انها سيدة نساء العلمين۔۔(293/4)         

۷۔            حضرت تھانویؒ کے رسالہ ’’تعدیل حقوق الوالدین میں ہے:

’’اور یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اس شخص کے اس کام میں مشغول ہو جانے سے بوجہ کوئی خادم وسامان نہ ہونے کے خود ان کے تکلیف اٹھانے کا احتمال قوی ہے یا نہیں ۔پس اگر اس کام میں خطرہ ہے یا اس کے غائب ہو جانے سے بوجہ بے سروسامانی تکلیف ہو گی تب تو ان کی مخالفت جائز نہیں ۔۔۔۔۔یا پھر ان کا کوئی خبر گیراں نہ رہے گا اور اس کے پاس اتنا مال نہیں جس سے انتظام خادم ونفقہ کافیہ کا کرجائے اور وہ کام اور سفر بھی ضروری نہیں تو اس حالت میں ان کی اطاعت واجب ہے ۔‘‘(بہشتی گوہر گیارہواں حصہ)۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved