- فتوی نمبر: 31-56
- تاریخ: 24 اپریل 2025
- عنوانات: عبادات > نماز > جمعہ کی نماز کا بیان
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مذکورہ مسئلے کے بارے میں کہ ہماری یونٹ ایران بارڈر پر ملکی سلامتی کے لیے ڈیوٹی سرانجام دے رہی ہے جس میں موجود جوانوں کی تعداد 700 سے کچھ اوپر ہے جن میں سے تقریبا 100 سے 150 جوان ہمہ وقت یونٹ میں موجود رہتے ہیں۔ باقی نفری مختلف پوسٹوں پر تعینات ہوتی ہے۔ یونٹ کے قریب 15 سے 20 کلومیٹر تک کوئی سول آبادی پاکستان میں نہیں ہے سنگو ان نام سے موسوم گاؤں میں چند ایک گھر یونٹ کے قریب ہیں۔ مگر فی الحال وہ تمام گھر خالی پڑے ہیں۔ البتہ یہ واضح رہے کہ یونٹ کے تمام جوانوں کی ضروریات یونٹ میں موجود کینٹین سے پوری ہو جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ یونٹ میں اور اس کی پوسٹوں پر مواصلاتی ذرائع (انٹرنیٹ کی صورت میں) موجود ہیں اور طبی امداد کے لیے مکمل عملہ موجود ہے۔ مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق سوال یہ ہے کہ:
1۔یونٹ میں موجود مسجد میں جمعہ کی نماز درست ہے یا نہیں؟
2۔مذکورہ مسجد میں عیدین کی نماز کا کیا حکم ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1،2۔مذکورہ صورت میں جمعہ اور عیدین کی نماز ادا کرنا درست نہیں۔
توجیہ: جمعہ اور عیدین کے صحیح ہونے کے لیے مصر یا فنائے مصر ہونا ضروری ہے یعنی جس جگہ مسجد ہو وہ شہر یا بڑا قصبہ ہو یا بڑے قصبے کی فناء ہو، فناء سے مراد وہ جگہ ہے جو شہر یا قصبے کی ضروریات کے لیے تیار کی گئی ہو جیسے قبرستان، عید گاہ، سرکاری اسکول یا ہسپتال وغیرہ۔مذکورہ مسجد نہ بڑے شہر میں ہے ، نہ ہی شہر کی فنا ء میں ہے اس لیے جمعہ اور عیدین پڑھنا درست نہیں۔
شامی (3/6تا9)میں ہے:
فى الدر المختار:(ويشترط لصحتها) سبعة أشياء:الأول: (المصر)…(او فناءه)….(وهو ما) حوله (اتصل به) أو لا (لأجل مصالحه) كدفن الموتى وركض الخيل والمختار للفتوى تقديره بفرسخ ذكره الولوالجى.
وفى رد المحتار: فقد نص الأئمة على أن الفناء ما أعد لدفن الموتى وحوائج المصر كركض الخيل والدواب وجمع العساكر والخروج للرمي وغير ذلك وأي موضع يحد بمسافة يسع عساكر مصر ويصلح ميدانا للخيل والفرسان ورمي النبل والبندق البارود واختبار المدافع وهذا يزيد على فراسخ فظهر أن التحديد بحسب الأمصار اهـ.
بدائع الصنائع(1/585)میں ہے:
وروي عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمه وعلمه أو علم غيره والناس يرجعون إليه في الحوادث وهو الأصح.
اعلاء السنن (8/128) میں ہے:
عن على رضى الله: قال لا جمعة ولا تشريق ولا صلوة فطر ولا أضحى إلا فى مصر جامع أو مدينة عظيمة.
شامی(2/166) میں ہے:
باب العيدين: سمى به لأن لله فيه عوائد الاحسان ……..(تجب صلاتهما) في الاصح على من تجب عليه الجمعة بشرائط المتقدمة (سوى الخبطة) فلانها سنة بعدها.
کفایت المفتی (3/2259میں ہے:
سوال: بڑا گاؤں جس کو اہل علاقہ یعنی اس کے گرد و نواح والے بڑا گاؤں جانتے ہیں اور آبادی اس کی اس وقت ۱۲۵۴ آدمی شمار میں آئی ہے ایک مدرسہ اور کئی مسجدیں بھی اس گاؤں میں ہیں آیا ایسے گاؤں میں عند الفقہا جمعہ و عیدین جائز ہے یا نہیں ؟ بینوا تو جروا ۔
جواب :دیہات میں جمعہ پڑھنا فقہائے حنفیہ کے نزدیک جائز نہیں کیونکہ منجملہ شرائط صحت جمعہ کے مصر جامع یا فناء مصر ہے اور مصر جامع وہ جگہ ہے جس میں بازار ‘ سڑکیں اور ایسا حاکم موجود ہو جو غلبہ کے اعتبار سے ظالم سے مظلوم کا انصاف لے سکے…….. پس جو مقام کہ خود مصر ہو یا توابع مصر سے ہو اس میں جمعہ جائز ہے اور جو مقام ایسا نہیں ہے اس میں جمعہ جائز اور صحیح نہیں ہے توابع مصر وہی جگہ ہوسکتی ہے جس سے مصر کے تعلقات وابستہ ہوں اور ضروریات مصر وہاں سے بہم پہنچائی جاتی ہوں ان دو جگہوں کے علاوہ کسی اور جگہ کے باشندوں پر جمعہ فرض بھی نہیں اور نہ ان کے ادا کرنے سے ادا ہوگا ہندوستان میں جمعہ صرف ان جگہوں میں جائز ہے جہاں کوئی حاکم مجاز رہتا ہو کسی ایسی بستی میں جہاں کوئی حاکم مجاز نہ ہو جمعہ صحیح نہیں اور نہ وہاں کے باشندوں پر جمعہ فرض ہے۔
فتاویٰ مفتی محمود (2/639) میں ہے:
سوال:کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک یونٹ ایک ریگستانی علاقہ میں کئی مہینے فوجی مشق کرنے کے لیے چلےجاتے ہیں۔ جس کو سکیم کہتے ہیں کیا ان لوگوں کو نماز ظہر پڑھنی چاہیے یا نماز جمعہ ؟
جواب: روایات فقہیہ کے مطابق اس یونٹ کی اس علاقہ میں اقامت جمعہ صحیح نہیں ہے۔ نماز جمعہ کی صحت اور وجوب کے لیے مصر یعنی شہر یا قصبہ اور قریہ کبیرہ کا ہونا شرط ہے۔ لہذا ایسے موقع پر نماز ظہر باجماعت جمعہ کی بجائے پڑھا کریں ) ہدایہ میں ہے۔ ولا جمعة بعرفات في قولهم جميعا.
فتاویٰ مفتی محمود (2/729) میں ہے:
سوال:کیا فرماتے ہیں مفتیان شرع متین کہ جب فوج سکیم پر جاتی ہے تو وہاں پر کیمپ جو ہوتا ہے وہ عارضی ہوتا ہے۔ وہاں جمعہ کے دن جمعہ کی نماز پڑھیں یا ظہر کی نماز پڑھیں اور کیمپ شہر سے دور اور جنگل میں ہوتا ہے صرف وہاں یونٹ کی نفری تقریبا تین یا چار سو ہوتی ہے۔ لہذا مہر بانی فرما کر ہماری اس معاملہ میں رہنمائی فرمائی جائے۔
جواب:واضح رہے کہ صحت جمعہ کے لیے مستقل آبادی شرط ہے جنگل میں یا خانہ بدوش جہاں عارضی رہائش اختیار کمرے اور وہاں مستقل آبادی نہ ہو وہاں جمعہ اور عیدین جائز نہیں۔ نیز جو از جمعہ کے لیے مصریعنی شہر یا قریہ کبیرہ کا ہونا بھی شرط ہے عرفات کے میدان میں جہاں لاکھوں افراد جمع ہوتے ہیں چونکہ مستقل آبادی نہیں۔ جمعہ جائز نہیں لہٰذا فوجی سکیم پر جب مستقل آبادی یعنی شہر میں قیام نہ ہو جمعہ درست نہیں۔
آپ کے مسائل اور انکا حل(4/121) میں ہے:
سوال: جب عساکر اسلامی فوج ٹرینگ کے لئے شہر سے دور کیمپ میں قیام کرتی ہیں اور انہیں وہاں طبی سہولتیں مکمل میسر ہیں ، تعداد چار، پانچ صد ہے، اس صورت میں کیا جمعہ فرض ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں تو ثواب سے محروم ہوں گے یا نہیں؟
جواب :جمعہ شہری آبادی میں ہوتا ہے، شہر کی آبادی سے دُور جنگل میں جمعہ نہیں ہوتا ، جس کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع کے موقع پر میدان عرفات میں ظہر کی نماز پڑھی تھی ، حالانکہ جمعہ کا دن تھا چونکہ جنگل میں جمعہ صحیح نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved