- فتوی نمبر: 2-276
- تاریخ: 15 فروری 2009
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
محترم مفتی صاحب مسئلہ بقول **** سابقہ کونسلر یہ ہے۔مرحوم****کا آپس میں پیسوں کا لین دین تھا۔ کبھی مرحوم پہلے لے لیتے اور واپس دے دیتے ۔ اور کبھی رابطہ کونسلر صاحب پیسے لے لیتے۔ اور واپس دے دیتے۔ تقریباً سات برس پہلےبقول سابقہ کونسلر کونسلر صاحب نے مرحوم سے چار تولے ہزار روپے بطور قرض ہے۔ اور ادا نہ کرسکے۔ اور ایک برس پہلے مرحوم وفات پاگئے۔ اب مرحوم کے چھوٹے بھائی زاہد سابقہ کونسلر سے رقم کا مطالبہ کررہے ہیں۔سابقہ کونسلر میں یہ رقم مرحوم کو دینا چاہتاہوں۔ حالانکہ ہمارے درمیان کوئی لکھت پڑھت بھی نہیں ہوئی۔ مگر میں اللہ تعالیٰ کے ڈر سے مرحوم کی رقم واپس چاہتا ہوں۔ مگر میں کیسے رقم دوں۔ کیونکہ مرحوم کے والدین وفات پاگئے ہیں۔ اور مرحوم نے شادی بھی نہیں کی تھی ۔ اور مرحوم کے چھوٹے بھائی زاہد کے علاوہ تین بھائی اور ایک بہن بھی ہے۔
محترم مفتی صاحب عرض ہ ہے کہ ہمارے سابقہ کونسلر خاصے پریشان ہیں۔ کبھی وہ کہتے ہیں کہ کسی مسجد یا مرحوم کی قبر پر رقم خرچ کردوں۔ اور یہ میر طرف سے ادائیگی قر ہوجائے۔ اور یہ خدشہ بھی ظاہر کرتے ہیں۔ کہ اگر مرحوم کے چھوٹے بھائی زاہد صاحبکو رقم دے دیں۔ تو کل کوکوئی اور مسئلہ نہ کھڑا ہوجائے۔
عرض ہے کہ سابقہ کونسلر صاحب اہلسنت والجماعة سے تعلق رکھتے ہیں ۔ لہذا فتویٰ کے ذریعہ سابقہ کونسلر صاحب کی رہنمائی فرمادیں۔ اور دعا کریں کہ سابقہ کونسلر اور میں پانچ وقت کی نماز اور دین کے دوسرے احکامات بھی ادا کرنے والے بن جائیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں یہ رقم کسی ایک وارث کا حق نہیں بلکہ سب ورثاء کا حق ہے سائل کو چاہیے کہ وہ اس رقم میں سے سب ورثاء کو انکے حصے کے برابر دے دیں۔ جس کی صورت یہ ہے کہ کل رقم کو نو حصوں میں تقسیم کرکے دو دو حصے ہر ھائی کو اور ایک حصہ بہن کو ادا کرے۔ اور زاہد کو کہیں یا تو وہ دیگر بہن بھائیوں کو ساتھ لائے یا ان سے وکالت نامہ لکھوا کر لائے اور زاہد ان میں سے کوئی کام نہ کرے تو سائل خود ہر ایک کے پاس جاکر اس کاحصہ دے دے۔ فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved